src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

منگل، 3 جون، 2025

 قربانی پر بے رحمی و سنگ دلی کا شبہ



از: (مفتی )شفیع احمد قاسمی جامعہ ابن عباس احمد آباد





اس وقت ملک عزیز بھارت میں نفرتی پجاریوں کا ایک ٹولا چوکس ہے۔ مسلمانوں سے متعلق کسی چیز میں خامیاں ڈھونڈنا اپنی کامیابی کا بڑا معراج تصور کرتا ہے۔ خصوصا تہوار کے وقت نفرت و عداوت کی ہوا چلانے، اور معاشرے کو زہر آلود بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا۔ جس سے پوری فضا کی الفت ومحبت تار تار ہوجاتی ہے، آپسی بھائی چارگی کو گھن لگ جاتا ہے ،اسی کی ایک شاخ، قربانی پر بے رحمی و سنگ دلی کا شبہ پیدا کرنا ہے۔ اس سے سیکولر برادران وطن کے ذہن کو گندا کرنا، اور مسلمانوں کے خلاف ورغلانا ہوتا ہے، کہ مسلمان بڑے بے رحم، بے انصاف اور سنگ دل واقع ہوئے ہیں، اپنی خواہش نفسانی کے لیے جانوروں تک کی جان لیتے ہیں۔ اس پر بے ساختہ نوک قلم سے یہ مثل ابل پڑتا ہےکہ  " ہمارا کتا، کتا ہے تمہارا کتا ٹومی-  واہ بھائی کمال ہے جیسے لگتا ہے کہ اس طبقہ نے گوشت خوری کے لیے کسی جانور کی جان نہ لی ہو۔ کیا گوشت خور اس ملک میں صرف مسلمان ہیں ؟  پورے سال یہ گوشت خوری کریں تو یہ سنگ دلی اور جانوروں کا ہتیہ نہیں، بلکہ یہ انصاف و ہمدردی کے علمبردار ہیں؛ لیکن وہی کام فرزندان اسلام انجام دیں تو یہ بے انصافی اور سنگ دلی ہے۔  
ع    بریں عقل و دانش بباید گریست
  اس جیسی عقل و سمجھ پر ماتم کرنا چاہیے،  واقعہ یہ ہے کہ فرزندان توحید سے زیادہ اس دھرتی پر کوئی رحم دل، انصاف پرور نہیں۔ پرستان توحید کو یہاں تک ہدایت ہے کہ جنگ میں اپنے دشمنوں سے بھی ہمدردی و رحم دلی کریں۔ چنانچہ گھمسان کی لڑائی کے وقت عورتوں بچوں بوڑھوں اور گوشہ نشینوں کو قتل کی ممانعت کردی گئی ،اور عین جنگ میں لنگڑے لولے اور اپاہجوں سے چھیڑ چھاڑ پر روک لگادی گئی ۔
یہاں تو اس درجہ شفقت و ہمدردی ہے کہ اگر کوئی مسلمان کو اذیت پہنچا دے، سخت دکھ دیدے، پھر اس سے معافی مانگ لے، تو فرزندان توحید کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اس کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو یک لخت قلم زد کر دیتے ہیں، معاف کر دیتے ہیں۔ البتہ یہاں ہمدردی و رحم دلی بے عقلی کے ساتھ نہیں ہوتی بلکہ رحمت و شفقت عقل و دانش کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے۔ رحم و مہربانی کی دو قسمیں ہیں : ایک عقل و خرد کے ساتھ اور دوسری نادانی اور بے عقلی کے ساتھ _  اس کی مثال یہ ہے کہ ایک بچہ مکتب جانے سے منکر ہے ۔ وہ مچل رہا ہے کہ مکتب نہیں جانا ہے، اسے مکتب جانے سے وحشت ہو رہی ہے۔ ماں کی ممتا جوش میں آکر اس کی موافقت کر لیتی ہے۔ رحم و کرم کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ ماں بچے کے جذبات و خواہشات کا لحاظ کرلیتی ہے اور وقتی طور پر اسے اپنی شفقت و محبت کی آنچل میں چھپا لیتی ہے۔
اور شفقت کا ایک دوسرا رخ یہ ہے کہ ایسے وقت میں باپ شفقت پدری کو بالا ئےطاق رکھ کر بچے کو دو چپت لگاتا ہے، اور مکتب جا کر چھوڑ آتا ہے۔ یہ بھی رحم دلی و مہربانی ہے، تاہم دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ پہلی قسم کی رحم دلی میں نادانی اور ناسمجھی کار فرما ہے؛ اس لیے کہ فوری طور پر ماں نے بچے کے جذبات کی موافقت کر کے بظاہر رحم کیا ہے؛لیکن انجام اور مآل کے اعتبار سے اسے جاہل رہنے میں تعاون کیا ہے، جس کا نتیجہ ذلت و خواری اور رسوائی ہے۔ اور دوسری شفقت و محبت کا مظاہرہ جو باپ نے کیا ہے وہ عقل و دانش کے ساتھ ہے اس لیے کہ اس سے بچہ کا مستقبل سنورے گا، وہ علم سے آراستہ وپیراستہ ہوگا، جس سے معاشرے میں عزت و تکریم ملے گی، اور قدر و منزلت حاصل ہوگی۔
آئیے آنکھیں کھول کر دیکھیے،ہمارے اسلاف و پروجوں کا موقف تو یہ ہے:
ع با دوستاں تلطف با دشمناں مدارا
           ہمارے اکابر کی شفقت و کرم فرمائی کا کیا پوچھنا، اس واقعہ سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت ابو بکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ(م:334ھـ)
نے ایک مرتبہ سفر میں شکر خریدا گھر پہنچے تو اس میں ایک چیونٹی ملی، انہوں نے سوچا کہ یہ چیونٹی راستے میں تو کہیں چڑھی نہیں، اس لیے کہ اس کی بندش بہت مضبوط اور ٹھوس تھی۔ لہذا اسی دکان سے ہی آئی ہے، اور اس کا کوئی نہ کوئی ساتھی ہوگا جو اس کے فراق و جدائی سے پریشان ہوگا۔ چنانچہ وہ واپس دکان دار کے پاس آئے، اور اپنی پوٹری کھولی، چیونٹی کو وہاں چھوڑا ۔ تصور کیجئے جب جانور، بلکہ ایک حقیر سی مخلوق پر ایسی شفقت و کرم فرمائی ہمارے اکابر و اسلاف کا شیوہ رہا ہے، تو انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس پر کس درجے شفقت اور رحم دلی ہوگی۔
یہ محبت کا امتحان ہے
جس شخص میں مخلوق کی ایسی شفقت و رحمت ہو، بھلا وہ کیسے بے رحم اور سنگ دل ہو سکتا ہے۔ معلوم ہوا یہاں جانوروں کو ذبح کرنا بے رحمی اور سنگ دلی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی حقیقت کی تہہ میں ایک عجیب نکتہ ہے۔ وہ یہ کہ اس سے پروردگار عالم اپنی محبت کا امتحان چاہتا ہے کہ تمہیں مخلوق سے اس درجہ محبت و الفت ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ میری محبت پر مخلوق کی محبت و عقیدت غالب آگئی ہو، تو قربانی درحقیقت یہ اس بات کا اعلان ہے،کہ پروردگار عالم ہمارے دل میں مخلوق کی اس درجہ شفقت و ہمدردی کے باوجود ہم تیرے حکم کے آگے ہر قیمتی چیز اور ہر محبت قربان کر سکتے ہیں، اور دنیا کی ہر شئی تیرے حکم پر نثار و قربان ہوسکتی ہے۔
اس کو اس واقعے سے سمجھیے۔ ایک مرتبہ سلطان محمود سے کسی نے دریافت کیا کہ آپ ایاز کو اس قدر عزیز کیوں کر رکھتے ہیں؟ آخر اس میں کون سا سرخاب کا پر لگا ہے۔ سلطان محمود نے جواب میں فرمایا ، موقع آنے پر بتاؤں گا، چنانچہ ایک موقع پر اس نے ایک نایاب قیمتی موتی تمام وزراء کے سامنے رکھی، حکم دیا کہ اس نایاب قیمتی موتی کو توڑ دو۔ سب سے پہلے وزیراعظم کو حکم ہوا۔ اس نے معذرت چاہی اور کہا کہ حضور! یہ قیمتی اور نایاب موتی ہے، اسے نہ توڑا جائے۔ اور دل میں تصور یہ کیا کہ شاید سلطان کے دماغ میں اس وقت کچھ خلل ہے، اسی لیے اسے توڑنے کا حکم دیا ہے  پھر یکے بعد دیگرے تمام وزراء کو یہ حکم ہوا، اور ہر ایک نے معذرت خواہی کی، کسی نے اس قیمتی موتی کو توڑنے کی جرات نہیں کی۔  بالآخر باری آئی ایاز کی۔ جب سلطان نے ایاز کو حکم دیا کہ ایاز اس قیمتی اور نایاب موتی کو توڑ ڈالو۔ لپک کر اٹھا، دو پتھر لاکرایک کو نیچے رکھا ، در نایاب کو اس پر جمایا، اوپر سے دوسرا پتھر اس پر دے مارا موتی کے پرخچے اڑ گئے۔ محل میں سناٹا چھا گیا،سارے وزراء ایاز کو ملامت کرنے لگے، لعن و طعن کرنے لگے، ایاز نے کہا احمقو!  تم مجھے ملامت نہ کرو، تم لوگ بیوقوف ہو، میں نے جو کیا ہے بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ میں نے قیمتی اور نایاب موتی توڑی ہے، لیکن حکم سلطان کا پاس و لحاظ رکھا ہے۔ میرے نزدیک بادشاہ کے حکم کے آگے دنیا کی ہر قیمتی اور نایاب شئی ہیچ اور بے قیمت ہے، سلطان کے حکم کے آگے دنیا کی ہر چیز ٹوٹ سکتی ہے؛ مگر بادشاہ کا فرمان نہیں ٹوٹ سکتا۔
مسلمانوں کی مثال ایاز کی سی ہے یقینا جانور سے اسے بے حد محبت و پیار ہے، لیکن مالک کے حکم کے آگے ساری محبتیں ہیچ اور فروتر ہیں، بس اس کی محبت اور عظمت سب سے بالاتر اور سب پر فائق ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages