src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> اسکول کالج کے طلبہ کے نام...... ایک معاشرتی ناسور ..... - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

پیر، 30 ستمبر، 2024

اسکول کالج کے طلبہ کے نام...... ایک معاشرتی ناسور .....

 





اسکول کالج کے طلبہ کے نام...... ایک معاشرتی ناسور ..... 



از :- امتیاز رفیق سر 

8459411616 




یہ بات کوئی ایسی نہیں کہ سمجھ کو نہ چھوئے ، مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں آگ سے کھیلنے کا بہت شوق ہوتا ہے ، جو بلا وجہ جلتے انگارے کو ہاتھ میں لینا بہادری خیال کرتے ہیں، جنہیں اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مارنے کی عادت سی ہو جاتی ہے جو تیراکی نہ جاننے کے باوجود گہرے سمندر میں کودنا پسند کرتے ہیں، نتیجتاً ہوتا کیا ہے ؟ بالا آخر وہ ہلاکت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ، اور وہ وقت بھی جلد آ جاتا ہے کہ وہ ہلاک ہی ہو جاتے ہیں. ایسا ہی کچھ حال ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کا ہے ،یہ تذکرہ کسی اور کا نہیں ہماری نوجوان نسل کا ہے، آپ نے یہ کہتے تو سنا ہی ہو گا کہ جدید دور ہے ، دنیا جدت پسندی کی طرف مائل ہے، دنیا کا سارانظام ایک مٹھی میں سما چکا ہے، جسے ہم انگریزی میں کچھ اسطرح بھی کہتے اور خود کو ماڈرن سمجھتے ہیں 

The world has come on finger tip 

اور مشکل سے مشکل کام چند منٹوں میں نمٹ جاتا ہے ، جدت کی انتہا یہ ہے کہ پاس بیٹھا تو پاس ہی ہے مگر دنیا کے کسی کونے میں بیٹھا شخص بھی پاس آچکا ہے اس لئے کہتے کہ دنیا ایک Global village بن کر رہے گئ ہے. اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کیسے ہوا؟ تو کہا جائے گا انٹر نیٹ سے ، یوں تو انٹر نیٹ کے جتنے فائدے ہیں تو نقصان کا بھی کوئی احاطہ نہیں، پھر مزید یہ کہ سوشل نیٹورک جو معاشرے پر برے اثرات مرتب کیے ہیں وہ ان گنت ہیں۔ اب تک فیس بک نے معاشرے کو جس جگہ پر لاکھڑا کیا ہے اُسکے تصور سے بھی خوف آتا ہے نتیجتاً کیا ہوا؟؟ کئی گھرانے اجڑ گئے ، کئی بہن اور بیٹیوں کا سہاگ اجڑ گیا، گھروں کے گھر تباہ ہوئے ، سوائے کف افسوس ملنے کے کوئی چارہ نہ رہا، نوجوان بیٹے اور بیٹیوں نے چیٹنگ chating اور پوسٹنگ posting کے ذریعے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ انکے والدین اپنے بچوں کی راہ دیکھتے رہ گئے اور نوجوان لڑکے لڑکیوں کی زیست، لائک، سبسکرائب، شیئر اور فالو والی بن کر رہے گئ. گزشتہ چند سالوں میں کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ انکو سوچ کر دل خون کے آنسوؤں رونے پر مجبور ہوا، یہ سب کچھ ہوتا رہا اور ہم اسکو جدت پسندی کا نام دیتے رہے اور یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا، بلکہ اس سلسلے کی کئی ایک کڑی ہے “ ٹک ٹاک“ اور انسٹا TIK-TOK, INSTA نامی ایپ ہیں جس نے رہی سہی شرم و حیا بھی ختم کر دیا . سن 2016 میں اسکو انگریزوں نے لانچ کیا اور اسکے لانچ ہوتے ہی نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اسکی گرویدہ ہو گئی، تقریباً 150 ملکوں میں 500 ملین یوزر ز ہو گئے، حیرت اس پر نہیں کہ اسکو لانچ کیا گیا ، ظاہر ہے دشمن آئے دن  نئے نئے حربے استعمال کر ہی رہا ہے ، اور کرے گا بھی آئندہ، لیکن کیا ہوا ہم مسلمانوں کو ؟.... ایک بات اور بھی ذکر کردوں کہ شہر کہ ایک ادارے میں میرا تعلق ایک ہم وطن بھائی سے بھی ہوا اور جس سے دورانِ گفتگو انسٹا کا ذکر کیا.... کہنے لگا وہ ایپ میرے پاس نہیں ہے... گفتگو میں ایک صاحب نے کہا کہ میں ڈونلوڈ کیے دیتا ہوں اس نے صاف انکار کردیا...... یہ ہے واضح فرق اور رہا سوال دشمن کا تو وہ تو آپ کو ہر حربے کا شکار بنائے گا ہی پھر وہ آن لائن گیم ہو یا کھیل  وہ اپنے مقصد میں بامراد ہوتا ہے اور ہم اپنی زندگی کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں؟ دشمن تدبیریں اختیار کرتا ہے اور ہم معاون بنتے چلے جاتے ہیں، وہ اپنا مشن آگے بڑھاتا ہے اور ہم سہار ا بنتے چلے جاتے ہیں ، اس طرح کی چیزوں کو وجود دینے کا مقصد صرف یہی ہے کہ مسلمانوں کی ساخت کو کمزور کر دیا جائے انکی غیرت کو انکے اپنے ہاتھوں سے بھسم کیا جائے ، انکے کردار کو داغدار بنایا جائے، انکی حیا کا جنازہ نکالا جائے، انہیں اپنے لباس میں رکھ کر برہنہ کر دیا جائے ، انکی عزتوں کو گھر کی چار دیواری میں رہتے ہوئے نیلام کر دیا جائے، انکی عصمت کو انکے اپنے ہاتھوں سے ختم پامال کر دیا جائے۔ یہی وہ سوشل میڈیا ایپلیکیشن ہیں جس نے بند کمرے میں بھی بیٹیوں کو غیر محفوظ کر دیا، جسکے ذریعے ہماری بیٹیاں حُسن کے جلوے دکھاتی نظر آتی ہیں ، وہ لباس پہن کر بھی برہنہ ہوتی ہیں ، اور صرف یہی نہیں بلکہ نوجوان لڑکوں کا نا مناسب ، غیر اخلاقی اور بے حیائی سے بھر پور فلمی ایکٹنگ نے تو پوری نسل شباب کو سر جھکانے پر مجبور کر دیا ہے  لیکن زرا سوچیں کہ کیا ہم اس ایکٹنگ کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ؟ کیا یہ جدید دور میں جدت کا صحیح استعمال ہے ، کیا ان چیزوں کے استعمال سے ہم رب کے غضب کو دعوت نہیں دے رہے ؟ گھر خصوصا بیٹیاں اور بہنیں جو اس دلدل میں گھس کر اپنے ہاتھوں سے اپنی آبروریزی کر رہی ہیں کیا یہ حیا کا تماشہ نہیں؟ جب کہ حیا کے متعلق اللہ کے نبی کا فرمان ہے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے ”کیا یہ غیرت کا جنازہ نہیں ؟ کیا یہ تعلیمات نبی سے کھلی بغاوت نہیں ؟ حالانکہ شریعت اسلامیہ نے عورتوں کو کس حد تک غیروں کی نظروں سے محفوظ رکھا، تمہیں بولنے کی اجازت تو دی مگر آواز پست رکھنے کا حکم دیا، حتی کہ عبادت میں بھی تمہیں  چھپائے رکھا، نماز ہو تو گھر کے کونے میں ، وہ بھی خود کو سمیٹ کر حج ہے تو تلبیہ پست آواز سے ، یہ سب کچھ اس لئے کہ تمہاری عزت پر حرف نہ آئے لگتا یوں ہے کہ ابن آدم اور بنتِ آدم دونوں رب آدم کے فرمان کو بھلا بیٹھے ہیں ، وہ فرماتا ہے کہ “ یقیناً تم پر نگہبان مقرر ہیں وہ کر اما کا تبین ہیں ” (سورہ انفطار ) وہ فرماتا ہے کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم نے تمہیں ایسے ہی بیکار پیدا کیا (سورہ حج ) کیا اس پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی یاد نہیں، کہ آپ نے فرمایا، آدمی کے لئے اسلام میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ فضول اور لایعنی باتوں کو چھوڑ دے، حضرت عمران بن حصین رضی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں نے جھنم میں جھانک کر دیکھا وہاں اکثر عورتیں ہیں ” اے بنت حوا ! کیا تمہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج میں جھنم کا دیکھنا یاد نہیں ؟ کہ آپ نے فرمایا کہ “ میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ اسکا جسم آگ کی قینچی سے کاٹا جار ہا تھا یہ اس عورت کی سزا تھی جو اپنا جسم اور زینت مردوں کو دکھایا کرتی تھی !


یاد رکھو! کہ انسان کی عزت نفس دوسرے سے پہلے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے، انسان دوسرے سے پہلے خود اپنی ذات اور عزت کا محافظ ہے ،

اس بات کو گزشتہ دنوں میں نے انگریزی میں کچھ اسطرح لکھا تھا 

Its you who offer a chance to insult yourself unless you don't show off 


اگرچہ ہم دوسروں کی آنکھوں کو نہ دیکھنے پر مجبور کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ، لیکن خود کو دوسروں کے سامنے لانے سے روک تو سکتے ہیں نا، اگرچہ دوسروں کی آنکھوں میں حیا نہیں بھر سکتے مگر خود تو باحیا بن سکتے ہیں نا؟ اور آج معاشرے میں حیا کا سودا بس ان تین باتوں پر محیط رہے گیا ہے جسے نوجوان نسل لائک، سبسکرائب اور شیئر کی شہرت کو دولت اور وقار سمجھتی ہے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages