یکساں سِوِل کوڈ - ہمارے کرنے کے کام
محمد رضی الاسلام ندوی
1- پہلی بات یہ کہ حکومت کے ارادوں کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں یہ تأثر ہرگز نہیں دینا چاہیے کہ ہم بہت پریشان ہیں ، یکساں سول کوڈ ہمارے خلاف ہے ، یہ ہمارے بنیادی حقوق کے خلاف ہے ، یا دستور میں ہم کو جوحقوق دیے گئے ہیں ، حکومت ہمیں ان سے محروم کر رہی ہے اور ایسے اقدامات کر رہی ہے جن سے مسلمان پریشان ہوں ۔ چنانچہ ہمیں ردِّ عمل کے طور پر عوامی مظاہروں ، جلوسوں اور پبلک مقامات پر بڑے بڑے جلسوں سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ لا کمیشن نے یکساں سول کوڈ کے بارے میں تجاویز اور مشورے مانگے ہیں ۔ ای میل کے ذریعے زیادہ سے زیادہ افراد کی طرف سے اس کا جواب جانا چاہیے ۔ ساتھ ہی ضرورت اس بات کی ہے کہ علمی مجلسوں میں اس موضوع کے قانونی پہلوؤں کو نمایاں کیا جائے ۔اس کو ڈبیٹ کا موضوع بنایا جائے ۔ انٹلیکچولس کے فورم تشکیل دے جائیں ۔ ان میں یہ باتیں آئیں کہ یکساں سول کوڈ ملک کے دستور میں اقلیتوں کو دیے گئے تحفظات کے خلاف ہے ۔
2 ۔ ہم کو ملک کے تمام شہریوں کے سامنے یہ بات کہنے کی ضرورت ہے کہ الٰہی قانون اور انسانی قانون میں فرق ہوتا ہے ۔ مسلمان یکساں سول کوڈ کے کیوں خلاف ہیں؟ اس بات کو بہت عقلی انداز میں اور سنجیدہ طور سے نمایاں کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم بتائیں کہ مسلمان انسانی قانون اور الٰہی قانون میں فرق کرتے ہیں ۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ ہمیں جو احکام بھی ملے ہیں ، وہ چاہے عبادات سے متعلق ہوں ، یا سماجی زندگی سے متعلق ، وہ من جانب اللہ ہیں ۔ ان میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی ۔ یہ ہمارا عقیدہ ہے اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے ۔ انسانی قانون بدلے جاسکتے ہیں ، ان میں ریفارم کیا جا سکتا ہے ، لیکن الٰہی قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی ۔ یہ بات کہتے ہوئے ہمیں ایک اور نکتے کو واضح کرنے کی ضرورت ہے ، وہ یہ کہ اسلامی قانون کے دو حصے ہوتے ہیں : ایک وہ جسے قرآن و حدیث میں صراحت سے بیان کیا گیا ہے ۔ اس کو ’منصوص احکام‘ کہا جاتا ہے ۔ ان میں کبھی کسی صورت میں تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔ دوسرے وہ احکام جو قرآن و حدیث سے مستنبط کیے گئے ہیں ۔ علماء نے قرآن و حدیث میں غور خوض اور اجتہاد کرکے کچھ قوانین قوانین بنائے ہیں ، ان میں تبدیلی ہو سکتی ہے ۔ ان میں سے اگر کچھ باتیں حالات و زمانہ کے مطابق نہ ہوں تو ان میں تبدیلی کی جا سکتی ہے ۔
3۔ تیسرا کام ہمیں یہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کے عائلی قوانین کے بارے میں لوگوں کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دوٗر کریں ۔ ہم یہ واضح کریں کہ اسلام کے جو عائلی قوانین ہیں ، وہ معقول ہیں ۔ ہمارے مخالفوں کی طرف سے ایک بات یہ پھیلائی گئی ہے کہ اسلام کے عائلی قوانین ظالمانہ ہیں ۔ ان میں عورتوں کی حق تلفی کی گئی ہے ، وہ عورتوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرتے ہیں ۔ ہم کو یہ وضاحت کرنی ہے کہ اسلام کی عائلی تعلیمات بہت معقول اور عورت کے حقوق کی حفاظت کرنے والی ہیں ۔ اگر اس معاملے میں کچھ کوتاہی پائی جاتی ہے تو وہ مسلمانوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ہے ۔ ہم مسلمانوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں ، ساتھ ہی ان قوانین کے معقولیت کو بھی واضح کریں ۔
یہاں میں دو مثالیں دوں گا ۔
جواعتراضات بہت زیادہ زبان زد ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسلام نے وراثت میں عورتوں کاحصہ نصف رکھا ہے ۔ یہ بات اتنی زیادہ عام ہے کہ مسلمان بھی یہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کو وراثت میں مردوں کا نصف دیا گیا ہے - حالاں کہ اسلام کے قوانینِ وراثت کا ہم جائزہ لیں تو بہت سی صورتیں ایسی سامنے آتی ہیں جن میں عورت کو مرد سے زیادہ ملتا ہے ۔ مثال کے طور سے اگر ورثہ میں ماں ، باپ اور بیٹی ہو تو ماں کو 16.7%باپ کو 33.3%اور بیٹی کو% 50 ملتا ہے ۔ کئی صورتیں ایسی ہیں جن میں مرد اور عورت دونوں کو برابر حصہ ملتا ہے۔ مثلاً کسی شخص کا انتقال ہو ، اس کی اولاد بھی ہو اور ماں باپ بھی ہوں ، تو ماں اور باپ میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ(16.7%) ملتا ہے ۔ جن چند صورتوں میں عورت کا حصہ مرد کے مقابلے میں کم ہے ، ان میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ عورت کو جو کچھ ملے گا اس میں سے ایک پیسہ بھی اسے خرچ نہیں کرنا ہے اور مرد کو جو کچھ ملے گا اس کو فوراً خرچ کرنا ہے ۔ مثلاً کسی شخص کا انتقال ہوا اور اس کے ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہو تو اس کے مال وراثت کے تین حصے کیے جائیں گے ، بیٹے کو دوحصے (66.7%)ملیں گے اور بیٹی کو ایک حصہ (33.3%) ، لیکن بیٹی کو جو کچھ ملے گا اسے اس میں سے کچھ نہیں خرچ کرنا ہے ، جب کہ بیٹے کو جو کچھ ملے گا اسے اس میں سے اپنے بیوی بچوں ،چھوٹے بھائی بہنوں اور دیگر زیرِ کفالت افراد پر خرچ کرنا ہے ۔ اگر اس کو دوگنا مل رہا ہے تو خرچ ہونے کے بعد اس کے پاس کیا بچے گا؟جب کہ عورت کو اگرچہ کم مل رہا ہے ، لیکن وہ اس کے پاس پورے کا پورا محفوظ ہے ۔
دوسرا موضوع طلاق کا ہے ۔ یہ بالکل صحیح بات ہے کہ طلاق ہمارے زمانے میں عورت پر ظلم کا ہتھیار ہو گیا ہے۔ عورت نے بیس پچیس برس شوہر کے ساتھ زندگی گزاری ، شوہر کو کسی بات پر غصہ آگیا ۔ اس نے طلاق دے کر اس کو بے یار ومددگار چھوڑ دیا ۔ یہ عورت پر سراسر ظلم لگتا ہے ۔ لیکن طلاق کے بارے میں اسلام کی تعلیمات پر غور کیاجائے تو وہ اصلاً مرد کو سزا تھی ۔ اسلام نے نکاح کو انتہائی آسان رکھا ہے ۔ عورت چاہے مطلّقہ ہو یا بیوہ ، یہ اس میں کوئی عیب نہیں ۔ تئیس سالہ دورِ نبوی میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کوئی عورت بیوہ ہوئی ہو ، یا اس کو طلاق دی گئی ہو اور اس کی دوسری شادی نہ ہو پائی ہو ۔ اگر سماج میں آسان نکاح عام ہو جائے اور کوئی عورت طلاق یا بیوگی کے بعد بے نکاحی نہ رہے تو طلاق سے کسی عورت کو پریشانی نہیں ہوگی ۔ چوں کہ اسلام کی تعلیمات پر مسلم سماج میں عمل ہی نہیں ہورہا ہے اس لیے یہ تعلیمات عورت پر بوجھ اور ظلم محسوس ہوتی ہیں ۔
4 ۔ ایک کام ہمیں یہ بھی کرنا ہے کہ ہم مسلم سماج کی اندرونی اصلاح پر توجہ دیں ۔ یکساں سول کوڈ کے خلاف مہم چلانے کے ساتھ ہمیں یہ مہم بھی چلانی چاہیے کہ مسلمانوں کے سماج میں جو کم زوریاں ہیں ، وہ دوٗر ہوں اور ان میں یہ آمادگی پیدا ہو کہ وہ ہر حال میں اسلامی تعلیمات پر عمل کریں گے ۔ چاہے جتنے سخت سے سخت قوانین بنا لیے جائیں ، اگر مسلمان عدالتوں سے رجوع ہی نہیں کریں ، اپنے اختلافات کو حل کرنے کے لیے عدالتوں میں جائیں ہی نہ تو ان قوانین کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ ہوتا یہ ہے کہ مسلمانوں میں جو آزاد خیال لوگ ہیں ، جنہیں اسلامی شریعت پر عمل سے کوئی دل چسپی نہیں ہے ، وہ عدالتوں میں جاتے ہیں ، جہاں کے بہت سے قوانین اسلامی شریعت سے ٹکراتے ہیں ۔ دنیا کے بعض ممالک ، جہاں خلافِ اسلام قوانین بنائے گئے ، وہاں مسلمانوں کے عقیدہ اور ایمان میں مضبوطی پائی جاتی تھی ، اس وجہ سے ان کا کچھ نہیں بگڑا ۔ روس میں تقریباً 70 سال تک مذہب پر پابندی عائد رہی ، لیکن اس دوران کبھی ایسانہیں ہوا کہ مسلمان اپنے دین کی تعلیمات سے بے بہرہ ہوگئے ہوں اور انہوں نے اسلام ترک کردیا ہو ، بلکہ ان سخت ترین حالات میں بھی وہ اپنے دین پر قائم رہے ۔ دوسری مثال ترکی کی ہے ۔ 1924 کے بعد جب خلافت کا خاتمہ ہوا تو وہاں بھی بہت سخت پابندیاں عائد کی گئیں: قرآن پڑھنا ممنوع ٹھہرا ، یہاں تک کہ اگر قرآن کا نسخہ کسی کے پاس مل جاتا تو اسے پھانسی دے دی جاتی ، اذان پر پابندی ہوگئی ، عربی زبان اور مسلم لباس کو ممنوع قرار دیا گیا ۔ لیکن کیا مسلمان قرآن کو بھول گئے تھے؟ انہوں نے دین پر عمل کرنا ترک کردیا تھا ؟نہیں ، بلکہ دین وایمان سے ان کی وابستگی بہ دستور باقی رہی ۔
5 ۔ یکساں سول کوڈ کو اس طرح پیش کیاجارہا ہے جیسے یہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہے ، اس کے نافذ ہونے سے صرف مسلمان متاثرہوں گے اور وہ اپنے دین کی تعلیمات پر عمل کرنے سے محروم ہوجائیں گے ۔ ایسا نہیں ہے ، بلکہ یہ قانون ملک کے دوسرے شہریوں کو بھی متاثر کرے گا ۔ ہندوستان کی کئی ہزار سال کی تاریخ ہے ۔ یہاں مختلف مذاہب ، تہذیبوں اور قبیلوں کے لوگ آپس میں میل جول کے ساتھ رہتے رہے ہیں ۔ ان کو اپنے اپنے کلچر پر عمل کی آزادی رہی ہے ۔ یکساں سول کوڈ نافذ ہونے کے نتیجے میں یہ تمام لوگ متاثر ہوں گے ۔ خود ہندوؤں کے درمیان چھوٹے بڑے بہت سے گروہ ہیں ۔ ایک قانون کے نتیجے میں ان کا بھی تشخص مجروح ہوگا ۔ اس لیے یہ چیز ان کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہوگی ۔ اس وقت کرنے کا ایک کام یہ بھی ہے کہ مسلمان دوسرے مذہبی گروہوں سے رابطہ کریں ، ان سے ملاقات کریں اور ان کو بھی یکساں سول کوڈ کی مخالفت کرنے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے پر آمادہ کریں ۔
اگر ہم ان کوششوں کو انجام دیں تو ان شاء اللہ ان کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئیں گے ۔ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ عروج و زوال اور اتار چڑھاؤ کی تاریخ رہی ہے ۔ سرد و گرم حالات سامنے آتے رہے ہیں ۔ کسی زمانے میں چنگیز اور ہلاکوخان نے عالم اسلام کا صفایا کردیا تھا ، لیکن پھر خود انہی میں سے ایسے لوگ سامنے آئے جنہوں نے اسلام کے خلاف جاری ماحول کو ختم کیا ۔ علامہ اقبالؒ کا شعر ہے ؎
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
ہم کو ان حالات سے ہرگز گھبرانا اور پریشان ہونا نہیں ہے ۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہم ہر حال میں صبر کا مظاہرہ کریں ۔ صبر کا معنیٰ یہی ہے کہ ہم اپنے دین اور ایمان پر جمے رہیں ۔ حالات چاہے جتنے زیادہ خراب ہوں ، ان شاء اللہ ہم ان سے متاثرنہیں ہوں گے اور ہرحال میں اسلام پرعمل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ ان شاء اللہ حالات بدلیں گے اور ہمیں آزادی کے ساتھ اپنے دین پرعمل کرنے کا موقع ملے گا ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں