کیا آپ کو معلوم ہے کہ وھیل کی قے کروڑوں روپے میں کیوں فروخت ہوتی ہے؟
کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کسی جانور کی الٹی یعنی قے سونے سے زیادہ قیمت ہو سکتی ہے؟ یہ ایک کروڑ روپے (انڈین) فی کلوگرام کی قیمت سے بھی فروخت ہو سکتی ہے؟
ہاں، یہ ہو سکتا ہے اگر یہ قے سپرم وھیل کی ہو۔
چین میں عنبر کا استعمال جنسی قوت میں اضافہ کرنے والی دوائیں تیار کرنے میں کیا جاتا ہے، جبکہ
عرب ممالک میں اس کا استعمال اعلیٰ درجے کی عطر یعنی خوشبو تیار کرنے میں ہوتا ہے۔
جب سپرم وھیل کیٹل فش، آکٹپس اور یا ایسے کسی دوسرے سمندری جانور کو کھاتی ہے تو اس کا نظام ہاضمہ ایک خاص قسم کی رطوبت پیدا کرتا ہے تا کہ شکار کے نوکیلے کانٹے اور دانت اس کے جسم کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔
اس کے بعد سپرم وھیل اس ناپسندیدہ کیمیائی مادے کو قے کے ذریعہ اپنے جسم سے نکال دیتی ہے۔ کچھ محققین کے مطابق سپرم وھیل پاخانے کے ذریعے بھی عنبر نکالتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وھیل کے شکار کی نوکیلے حصے بھی اس کے فضلوں میں پائے جاتے ہیں۔ وھیل کے جسم سے نکلنے والا یہ مادہ سمندر کی سطح پر تیرتا رہتا ہے۔
سورج کی روشنی اور سمندر کے نمک کے ملنےکے بعد یہ عنبر تیار ہوتا۔ خوشبو دار چیزیں بنانے کے لیے عبنر بہت کارآمد ہے۔
عنبر سیاہ، سفید اور سرمئی رنگ کا چربی دار مادہ ہے۔ یہ بیضوی یا گول شکل میں ہوتا ہے۔ یہ سمندر میں تیرتے ہوئے ایسی شکل اختیار کرتا ہے۔ یہ ایک آتش گیر مادہ ہے۔
ماہرین کے مطابق وھیل کے جسم سے خارج ہوا مادہ یا عنبر ابتدا میں بدبو دار ہوتا ہے لیکن جیسے ہی اس کا ہوا سے رابطہ بڑھتا ہے اس کی بدبو ایک میٹھی خوشبو میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ عنبر خوشبو کو ہوا میں اڑنے سے روکتا ہے۔ ایک طرح سے یہ سٹیبلائزر کا کام بھی کرتا ہے تاکہ بو ہوا میں تحلیل نہ ہو جائے۔
عنبر نایاب ہے اور اسی وجہ سے اس کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔ اسے سمندری سونا یا تیرتا ہوا سونا بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی قیمت سونے سے زیادہ ہے۔ بین الاقوامی منڈی میں اس کی قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے فی کلو تک ہو سکتی ہے۔
ہڈیوں، تیل اور عنبر کے لیے وھیل بڑے پیمانے پر شکار کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنہ 1970 کے بعد سے یورپ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں اس کے کاروبار پر پابندی عائد ہے۔
(جے دیپ وسنت)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں