src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> پھانسی اور عمر قید کی سزاؤں کے خلاف داخل اپیل پر دفاعی وکیل نے تحریری بحث داخل کی - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

پیر، 10 اپریل، 2023

پھانسی اور عمر قید کی سزاؤں کے خلاف داخل اپیل پر دفاعی وکیل نے تحریری بحث داخل کی

 





  


سی آر پی ایف کیمپ رامپور حملہ مقدمہ


پھانسی اور عمر قید کی سزاؤں کے خلاف داخل اپیل پر دفاعی وکیل نے تحریری بحث داخل کی



 لیگل سینکشن کی عدم موجودگی میں ٹرائل چلائی گئی: دفاعی وکیل، 
اگلی سماعت 3/ مئی کو



ممبئی10/ اپریل آر پی ایف رامپور مقدمہ میں نچلی عدالت سے چار ملزمین کو ملنے والی پھانسی کی سزا کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں داخل اپیل پر دفاعی وکلاء کی زبانی بحث مکمل ہونے کے بعد عدالت کی ہدایت پر تحریری بحث بھی داخل کردی گئی ہے۔43/ صفحات پر مشتمل تحریر ی بحث میں دفاعی وکیل ایم ایس خا ن نے عدالت کی توجہ تفتیشی ایجنسی کی جانب سے کی جانے والی غیر قانونی تفتیش اور نچلی عدالت کی جانب سے نظر انداز کیئے گئے شواہد کی جانب مبذول کرائی۔ تحریر ی بحث کو ریکارڈ پر لیتے ہوئے عدالت نے مقدمہ کی سماعت 3/ مئی کو کیئے جانے کا حکم جاری کیا، مقدمہ اپنے آخری مرحلہ میں داخل ہوچکا ہے۔

چار ملزمین کو پھانسی کے علاوہ نچلی عدالت نے ایک ملزم کو عمر قید کی سزا بھی سنائی تھی جس کے خلاف بھی اپیل داخل کی گی تھی، عدالت تمام اپیلوں پر یکجا سماعت کررہی ہے۔ یہ اطلاع آج یہاں ممبئی میں ان ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے دی۔
گلزار اعظمی نے بتایا کہ 31 دسمبر 2007کی شب رام پور میں واقع سینٹرل ریزروپولس فورس کیمپ پر ہوئے حملہ کے الزام میں نچلی عدالت نے ملزمین عمران شہزاد،محمد فاروق صباح الدین اور محمد شریف کو سزائے موت،جبکہ جنگ بہادر کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ نچلی عدالت کے فیصلہ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ نچلی عدالت کے فیصلہ کے خلاف داخل اپیل پر سماعت نہ ہونے کی وجہ سے ملزمین کی ضمانت پر رہائی کی عرضداشت داخل کی گئی تھی لیکن عدالت نے ضمانت پر رہا کیئے جانے کی بجائے اپیل پر حتمی سماعت کیئے جانے کا حکم جاری کیا جس کے بعددفاعی وکیل ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے بحث کی جبکہ ان کی معاونت ایڈوکیٹ انیل باجپائی اور ایڈوکیٹ سکندر خان نے کی۔
تحریری بحث داخل کرتے ہوئے ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے جسٹس اشونی کمار اور جسٹس ونود دیواکر کو بتایا کہ نچلی عدالت نے ملزمین کی جانب سے پیش کیئے گئے ثبوت وشواہد کو یکسر خارج کردیا جبکہ استغاثہ کیجانب سے پیش کیئے گئے نا قابل قبول ثبوتوں کو قبول کرلیا اور ملزمین کو سخت سزائیں دیں جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے نیز سرکاری گواہوں نے دوران گواہی ملزمین کی شناخت بھی نہیں کی تھی اس کے باوجود ٹرائل کورٹ نے ان کی گواہیوں کوقبول کرلیا۔
تحریری بحث میں مزید تحریر ہے کہ مقامی پولس اور سی آر پی ایف جوانوں کے بیانات میں تضاد ہے اسی طرح ریلوے افسران کی گواہی میں بھی واضح تضاد ہے نیز پولس اور سی آر پی ایف کیجانب سے 98/ راؤنڈ فائرنگ کے باوجود ایک بھی ملزم کو گولی نہیں لگی جس کی وجہ سے استغاثہ کے دعوی کی قلعی کھل جاتی ہے کہ ملزمین کو حادثہ کے مقام سے گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر فائرنگ کی گئی تھی۔اسی طرح ملزمین کے قبضوں سے مبینہ طور پر ضبط کیئے گئے آتش گیر مادے عدالت کی اجازت کے بغیر ضائع کردیئے گئے لہذا آتش گیر مادے کی ضبطی مشکوک ہوجاتی ہے۔  
تحریر ی بحث میں عدالت کو مزید بتایا کہ یو اے پی اے قانون، آرمس ایکٹ، آتش گیر مادہ کے قانون کے اطلاق کے لیئے حاصل کیا گیا ضروری اجازت نامہ غیر قانونی ہے، اجازت نامہ میں خامیاں ہیں اور یہ ایسی خامیاں ہیں جس کا اگر باریک بینی سے مطالعہ کیاجائے تو پورا مقدمہ ہی غیر قانونی ہوجائے گا کیونکہ لیگل سینکشن کی عدم موجودگی میں ٹرائل چلائی گئی۔سنگین مقدمات میں ٹرائل چلانے کے لیئے اتھاریٹی سے خصوصی اجازت حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ رامپور کی نچلی عدالت نے ایک جانب جہاں تین ملزمین کو ناکافی ثبوت و شواہد کی بنیاد پردہشت گردی کے الزامات سے بری کردیا تھا  وہیں بقیہ پانچ ملزمین کو قصور وار ٹہرایا تھا اور انہیں پھانسی اور رعمر قید کی سزا دی تھی۔
نچلی عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا تھا کہ ملزمین محمد کوثر، گلاب خان اور فہیم انصاری کے خلاف ملک دشمن سرگرمیوں اوردہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات نہیں ملے ہیں لہذا انہیں باعزت بری کیا جاتا ہے۔ ملزمین کے مقدمات کی پیروی جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی نچلی عدالت سے کررہی ہے۔




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages