دریائے فرات کا خشک ہونا ہی ھرمجدون
Armageddon (دنیا کی تاریخ کی سب سے آخری بڑی جنگ) کا ٹریگر پوائنٹ ہے
بہرحال یہ ایک اندازہ ہے جوکہ ٹھیک بھی ہو سکتا ہے غلط بھی
لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ دریائے فرات بہت تیزی کے ساتھ خشک ہو رہا ہے
اور آپ لوگ تو جانتے ہو کہ اسکے بعد پھر کس چیز کا وعدہ ہے
اور وہ وعدہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے جو ہر حال میں پورا ہوکر رہے گا
بہرحال جو نہیں جانتے تو انکے لیے یہ حدیث پیش خدمت ہے
عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعاً: «لا تقوم الساعة حتى يحسر الفرات عن جبل من ذهب يُقْتَتَلُ عليه، فَيُقْتَلُ من كل مائة تسعة وتسعون، فيقول كل رجل منهم: لعلي أن أكون أنا أنجو». وفي رواية: «يوشك أن يحسر الفرات عن كنز من ذهب، فمن حضره فلا يأخذ منه شيئا».
(صحیح-متفق علیہ)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نہ نکل آئے جس پر لڑ ائی ہوگی اور ہر سو ميں سے ننانوے آدمی مارے جائيں گے۔ ان میں سے ہر ایک یہ سوچے گا کہ شاید میں بچ جاؤں“۔ ایک اور روایت میں ہے کہ: ”قريب ہے کہ دریائے فرات (خشک ہوکر) سونے کے خزانے کو ظاہر کردے۔ لہٰذا جو شخص اس وقت موجود ہو، اس میں سے کچھ بھی نہ لے“۔
اب اسکی کیا صورت ہوگی تو وہ اللہ اور اسکے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں کہ سونا ایک پہاڑ کی شکل میں نکلے گا اور لوگ اس کے حصول کے لیے باہم لڑیں گے کیونکہ یہ ایک فتنہ ہوگا۔ پھر آپ ﷺ ہم میں سے اس شخص کو جو اس وقت موجود ہو اس کے لینے سے منع کررہے ہیں کیونکہ کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکے گا۔ ہو سکتا ہے کہ جو لوگ اس وقت موجود ہوں ان میں سے کچھ لوگ اس حدیث کی تاویل کرلیں جیسا کہ فتنہ پرور علماء سوء کا حال سب جانتے ہی ہیں اور حديث کو اس کی حقیقی معنی سے پھیر کر کوئی اور معنی مراد ليں تاکہ اپنے لئے اس خزانے سے کچھ لينے کو جائز ٹھہرا سکیں۔
بعض عرب محققین کا کہنا ہے کہ اس خزانہ میں سے کچھ بھی لینا اس لئے ممنوع ہے کہ خاص طور پر اس خزانہ میں سے کچھ حاصل کرنا آفات اور بلاؤں کے اثر کرنے کا موجب ہوگا اور ایک طرح سے یہ بات قدرت الہٰی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے !
نیز بعض حضرات نے یہ لکھا کہ اس ممانعت کا سبب یہ ہے کہ وہ خزانہ مغضوب اور مکروہ مال کے حکم میں ہوگا،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں