آئین ہند شہریوں کے بنیادی حقوق اور مساوات کا علمبردار

ازقلم : اے آزاد قاسمی
جمہور ی طرز حکومت کو ملک و ریاست کے لئے ایک نعمت تصور کیا جاتا ہے اور ہوں بھی کیوں نہیں کہ آمریت کے برخلاف اس طرح کی حکمرانی میں تمام ترفیصلے عوامی نمائندگان کے ذریعہ لئے جاتے ہیں۔ جمہوریت کی جامع تعریف میں خود علمائے سیاست کا بڑا اختلاف ہے، لیکن بحیثیت مجموعی اس سے ایسا نظامِ حکومت مراد ہے، جس میں عوام کی رائے کو کسی نہ کسی شکل میں حکومت کی پالیسیاں طے کرنے کے لیے بنیاد بنایا گیا ہو۔ دنیا بھرکی جمہوری مملکتیں کسی ایک دن کو جشن جمہوریت کے تعلق سے موسوم کرتی ہیں اور اس دن کو قومی تہوار کے تناظر میں مناتی ہیں، جس میں ریاستیں اپنے خاص کلچرل، ثقافتی پروگرام اور فوجی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اسی پس منظر میں وطن عزیز میں بھی 26 /جنوری کو جشن یوم جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ ملک میں بسنے والوں میں جمہوریت کی بقاء اور دوام کے لئے جوش ولولہ کو دوبالا کیا جاسکے۔ باشندگانِ ملک کو یاد دلایا جائے کہ جمہوری نظام میں عوام اورحکومت کے درمیان بامعنی گفتگو اور غور و خوض کیوں ضروری ہے؟ اس موقع سے یہ محاسبہ بھی کیا جاتا ہے کہ جمہوری طرز حکومت ملک میں بسنے والوں کے درمیان عدل و انصاف، آپسی ہم آہنگی کو فروغ دینے، آپس میں مذاکرات اور بحث و مباحثہ کی حوصہ افزائی کرنے میں کس حد تک کامیاب ہے۔ کسی بھی ملک کے جمہوری نظام سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ریاست کی حکومت کا رویہ ان اہم تصورات پرمبنی ہوگاجس میں شہریوں کے درمیان غیر جانبد اری،حق پرستی اور انصاف کی بالادستی کویقینی بنانے کا التزام ہوگا۔
وطن عزیز کادستور ایک ضخیم قانونی دستاویزی حیثیت رکھتاہے، اس میں جمہوریت کے بنیادی سیاسی نکات اور حکومتی اداروں کے طریقہ کار، اختیارات اور ذمہ داریوں نیز عام شہری کے بنیادی حقوق، رہنما اصول اور ان پرعائد ذمہ داریوں کو ترجیحی طورپربہت ہی اہتمام سے بیان کیا گیا ہے۔ دستور ہندکو یہ اعزازبھی حاصل ہے کہ یہ دنیا کا سب سے ضخیم تحریری دستور ہے۔اس تاریخی دستورکوقرطاسِ ابیض پر آنے میں کم وبیش تین سال کاوقت لگااور اس دوران میں 165دنوں پر محیط گیارہ اجلاس منعقد کئے گئے۔اس کی تیاری میں اس وقت کے اعلیٰ دماغ افرادکو اس کی کمیٹیوں میں شامل کیاگیا،جس میں تقریبا تمام ہی مذاہب کے پیروکاروں کی نمائندگی تھی، اس ضخیم آئین کی تیاری کے لئے قائم’مجلس‘یعنی مسودہ سازکمیٹی کے صدر ڈاکٹر امبیڈکر کو اس کا معمار اعظم کہا جاتا ہے۔ آئین ہند کے مطابق بھارت میں دستور کو پارلیمان پر فوقیت حاصل ہے،کیونکہ اسے”مجلس دستور ساز“ نے بنایا تھا نہ کہ بھارتی پارلیمان نے۔ آئین ہند کی تمہید کے مطابق بھارتی عوام نے اسے وضع اور تسلیم کیا ہے۔ آئین ہند کوایک اعلیٰ اختیاری کمیٹی”مجلس دستور ساز“نے 26 نومبر 1949ء کو تسلیم کیا تھا اوراس مسودہ پر284افرادنے اپنے دستخط ثبت کئے تھے۔اس دن کویعنی کہ26 /نومبر کو ہرسال یوم قانون کے طورپرمنایاجاتاہے، اوراسی دن کو’یوم آئین ہند‘ بھی کہاجاتاہے۔مجلس مسودہ سازی کا حتمی اجلاس 24 جنوری 1950ء کو منعقد ہوا۔ تمام ارکان سے آئین کے دونوں نسخوں (ہندی، انگریزی) پر دستخط لئے گئے۔ اصلی نسخہ ہاتھ سے لکھا ہوا ہے،جس کا ہر صفحہ شانتی نکیتن کے کلاکاروں کے نقش و نگار سے مزین ہے۔ اس میں پریم بہاری نارائن رائیزادہ نے اپنے فن خطاطی کا مظاہرہ کیا ہے۔ دو دن کے بعد 26 جنوری 1950ء کو یہ نسخہ بھارت کا قانون بن گیا، اوریوں برسوں کی محنت، لگن اورکوششوں سے ہماراملک ایک پائیدار جمہوریہ کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔
آئین ہند بھارت کو آزاد، سماجی، سیکولر اورایک وسیع جمہوری ملک کے طورپرمتعارف کراتا ہے،اس کا جمہوری آئین ہر باشندے کو برابرکے حقوق دیتاہے،مذہب،زبان اور علاقے کی بنیادپر کسی شہری کے ساتھ بھیدبھاؤ کرنا ہندوستان کے جمہوری آئین کی روح کے خلاف ہے،آئین ہندبھارت کے عام شہریوں کے تئیں انصاف، مساوات اور حریت کو یقینی بناتا ہے اور ہر ایک کے ساتھ بغیر کسی امیتازکے مساوات اوربرابری کو فروغ دینے پر ابھارتا ہے۔برصغیر 1857ء سے 1947ء تک برطانوی سامراج کے زیر نگیں تھا،اس کے جابرانہ اورغاصبانہ دورحکومت میں بے پناہ جبروظلم کے پہاڑتوڑے کئے گے،جس کی منہ بولتی تصویریں قدیم آثاراورتاریخی اوراق میں جابہ جاآج بھی بکھرے پڑے ہیں۔سیاح،ریسرچ اسکالراورتاریخی حقائق کی کھوج بین کرنے والے افراد ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے کھنڈرات کا دورہ کرکے ظالم گوروں کی انانیت کی دل خراش داستانیں قلم بند کرتے ہوئے آج بھی آپ کومل جائیں گے۔جابرانگریزوں کی بدتمیزیاں اوروحشت ناکیاں اس قدرعروج پرتھیں کہ تاریخی اوراق کے چند ایک صفحات کے مطالعہ سے آج بھی دل ماتم کناں ہواٹھتاہے، ان ظالم لوگوں کی انسانی حقوق کی پاسداری اوراس کے مساویانہ روی پرآج کے دورمیں دیئے جارہے لکچرسے دل کسی طورآمادہ نہیں ہوتابلکہ دل صاف گواہی دیتا ہے کہ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیاکی اکثریت کو اپنے زیرتسلط انہی کے گھروں میں بزورطاقت ذلیل ورسواکررکھا تھا اورقدم قدم پر تحقیر انسانیت کے مجرم اورگنہگارثابت ہورہے تھے۔
آج ہم اگرآزاداورخوشگورارفضاء میں سانس لے رہے ہیں تویہ ہمارے بزرگوں کی دن ورات کی مشقت اور قید وبند کی صعوبتوں کاثمرہ ہے۔ ان بزروگوں کی دوربینی اوردوراندیشی تھی کہ آج ہم اس گئے دورمیں بھی ہرطرح سے آسودہ ہیں اورکسی سے برابری کی سطح پرآکر کسی بھی معاملات میں ایک دوسرے سے اپنے حقوق کے لئے بات کرسکتے ہیں اوراپنے معاملہ کو خوش اسلوبی کے ساتھ سلجھاسکتے ہیں۔ وطن عزیز کی آزادی اورمعابعدایک تاریخی غلطی جس کے اثرات سے آج بھی ہم ابھر نہیں پائے ہیں، یقیناان جابرانگریزوں کی پرفریب سیاست کے نتیجہ میں رونماہوااورہمارایہ ملک مذہبی بنیادپر تقسیم ہوگیا، جس کے اثرات سے برصغیر کی ابھرتی ہوئی طاقت یکلخت دودھڑوں میں منقسم ہوکررہ گئی۔
یوم جمہوریہ ہند کی تاریخی تناظرمیں اگردیکھا جائے توملک میں مسلمانوں کی عزت وجاہ اوراس کے بنیادی حقوق کی لڑائی میں جمعیۃعلماء ہند کے اکابرین نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں،وہ یقینا باعث فخراورقابل تقلید ہے۔ جمعیۃعلماء ہند کے اکابرین نے ملک میں سیکولرآئین کے کردارمیں جو اپنا فیصلہ کن رول اداکیا، وہ تاریخ میں سنہری لفظوں میں آج بھی محفوظ ہے۔ اس کے اکابر ایک لمحہ کے لئے بھی اس بات سے غافل نہیں رہے کہ ملک میں کسی ایک طبقہ کی بالادستی قائم ہو، بلکہ جمعیۃعلماء ہند کے اکابرین پہلے دن سے اس بات پرثابت قدم رہے اورمجلس مسودہ کمیٹی کے ممبران سے برابریہ تقاضہ کرتے رہے کہ ملک کی بنیادسیکولرآئین پرقائم ہو اوراسی کے سہارے ہم سب مل کر ملک کو آگے لے جانے میں اپنااپنا کرداراداکریں۔بدقسمتی سے تقسیم ملک کے نتیجہ میں جب وطن عزیزمیں انارکی کی صورتحال پیداہوگئی، لوگ ایک دوسرے سے آپس میں ہی برسرپیکارہونے لگے توجمعیۃعلماء ہند کے اکابرین آزادیئ وطن میں شامل آل انڈیاکانگریس کمیٹی کے بزرگورں اورمہاتما گاندھی جی سے مسلسل اس بات کے لئے ملتے رہے اورکہتے رہے کہ آ پ نے ہم سے ملک میں سیکولرآئین اورسب کے ساتھ یکساں برتاؤکا وعدہ کئے تھے، ملک کا آئین سیکولر اوراخوت ومساوات پر مبنی ہونا چاہئے،اگر ملک بدقسمتی سے تقسیم ہواہے تواس کے ذمہ دارہم نہیں ہیں، ہم نے اس مسودہ پردستخط نہیں کئے ہیں اورنہ ہی ہماری کسی طرح کی تائید اس تقسیم کو حاصل رہی ہے۔ جمعیۃعلماء ہند کے اکابرین بہت مضبوطی سے اس بات پر ڈٹ گئے کہ تقسیم کی وجہ سے آپ ہمیں موردالزام نہیں ٹھہراسکتے۔
آج کے ماحول میں جب کہ ہر طرف آئین ہند میں دیئے گئے حقوق کو دھومل کرنے کی کوشش ہورہی ہے، بحیثیت مسلم امہ ہمارااخلاقی فریضہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اپنی تاریخ سے روشناش کرائیں،انہیں یہ یادلائیں کہ جس آئین کے سہارے آج ہم اپنے ملک میں آسودگی کے ساتھ رہتے چلے آرہے ہیں، وہ بہت قربانیوں کے بعد ہمیں ملا ہے۔ آج بھی ہم میں سے بہت سے افراد ایسے ہیں جو سرعام جمعیۃعلماء ہند کی خدمات کوہدف ملامت وتنقید بنانے سے نہیں چوکتے،جبکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ جمعیۃعلماء ہند کے اکابرین نے آزادیئ وطن کے بعد ہر محاذ پرحکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہرمسئلہ کے حل کے لئے سینہ سپررہی ہے، جہاں کہیں بھی اقلیتوں کے حقوق کی ان دیکھی کی زرابھی کوشش ہوئی جمعیۃکے اکابرین نے آگے آکر جمہوری طریقہ سے اس کے حل کی کوشش کی ہے اوراپنی آوازیں بلندکی ہیں۔ جمعیۃعلماء ہند اپنی تاسیس سے لے کر اب تک آزادیئ ہند اوراس کے سیکولرآئین کے تعلق سے جوکارہائے نمایاں انجام دی ہیں،اس پرآنے والی نسلیں نازکریں گی،جمعیۃعلماء ہندکے چودھویں اجلاس عام (1945)کے دوران سہارنپورمیں وفاقی حکومت کے تعلق سے پیش کردہ تجویز کے اس جزء کو ملاحظہ فرمائیں،جس سے جمعیۃ کے اکابرین کی ملک میں جمہوریت کے قیام کے حوالے سے پائی جانے والے فکرمندی عیاں ہوجاتی ہے۔اس میں کہاگیا تھاکہ ”وفاق کی تشکیل ایسے اصول پرکی جائے جس میں مسلمانوں کے مذہبی، سیاسی اورتہذیبی حقوق کااس طرح تحفظ کیاجائے جو مسلمانوں کے لئے قابل اطمینان ہو“۔ہم صدیوں سے مختلف مذاہب کے لوگ اس ملک میں مل جل کرپیارومحبت کے ساتھ رہتے چلے آرہے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ ملک کا جمہوری دستورہی ہے۔ آئے ہم عہد کریں کہ قومی تہوارکے اس اہم موقع پر آئین کے تئیں ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں گے، نیز اس بات کا عزم کریں کہ ہم جمہوریت کی حفاظت، بقا اور اس کی قدروں کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں