src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

منگل، 10 جنوری، 2023






                                          
آسام شہریت معاملہ
پانچ رکنی بینچ نے دورکنی بینچ کے 13سوالات کو ایک سوال میں ضم کردیا۔
سماعت 14/فروری تک کے لئے ملتوی، فریقین کو سوال کا تحریری جواب داخل کرنے کی ہدایت
بعض طاقتیں ترمیمی دفعہ کو ردکرواکر آسام میں ایک بارپھر انسانی بحران پیداکرنے کے درپے: مولانا ارشدمدنی
نئی دہلی 10/جنوری 2023۔۔  آج سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بینچ نے 1951کے آسام شہریت ایکٹ میں کی گئی ترمیم کو چیلنچ کرنے والی پیٹشن پر سماعت کی، سماعت کے دوران شکایت کنندہ کے وکلاء نے 14نکات عدالت کے سامنے رکھے، وکلاء کی بحث سننے کے بعد بینچ نے معاملہ کی سماعت 14فروری تک کے لئے ملتوی کردی ساتھ ہی دورکنی بینچ کے ذریعہ تیارشدہ 13سوالات کو پانچ رکنی آئینی بینچ نے ایک سوال میں ضم کردیا اورکہا کہ یہ سوالات بہت طویل ہیں اس لئے اب محض ایک سوال پر بحث ہونی چاہئے کہ آیا شہریت ایکٹ 1985کی دفعہ 6Aآئین کے اعتبارسے جائز ہے یانہیں؟ ساتھ ہی تمام فریقین سے اسی ایک سوال کے پس منظرمیں  چار ہفتہ کے اندر تحریری جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے، قابل ذکر ہے کہ آسام میں شہریت کے تعین کے لئے 1951کے شہریت ایکٹ میں سیکشن 6Aشامل کرکے شہریت کی بنیاد25/مارچ 1971کو حتمی تاریخ تسلیم کئے جانے کو باقاعدہ پارلیمنٹ میں منظوری دی گئی تھی، یہ ترمیم 15/اگست 1985کو آسام کی ریاستی سرکار اورمرکز کے درمیان ہوئے ایک اہم معاہدہ کی تکمیل میں کی گئی تھی، اس کے بعد آسام میں شہریت کا معاملہ تقریبا ختم ہوگیا تھا لیکن 2012میں بعض فرقہ پرست تنظیموں نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کرکے مطالبہ کیا کہ شہریت کی بنیاد25/مارچ 1971کے بجائے 1951کی ووٹرلسٹ کو بنایا جائے، اس کے ساتھ ساتھ اسی عرضی میں آسام معاہدہ کی قانونی حیثیت اورشہریت ایکٹ میں 6Aکی دفعہ کے اندراج کو بھی چیلنچ کیاگیا، اس معاملہ کو سپریم کورٹ نے جسٹس رنجن گگوئی اورجسٹس نریمن پر مشتمل ایک دورکنی بینچ کے سپردکردیا جس نے 13 سوالات قائم کرکے مقدمہ کو ایک پانچ رکنی آئینی بینچ کے حوالہ کردیا اب یہی بینچ اس مقدمہ کی سماعت کررہی ہے، اس میں جمعیۃعلماء ہند بھی ایک فریق ہے، آج جمعیۃ علماء ہند اورآمسو کی طرف سے مشہوروکیل مسٹرکپل سبل،اندراجے سنگھ اورایڈوکیٹ مصطفی خدام حسین وغیرہ پیش ہوئے اورجمعیۃ وآمسوکا موقف رکھا، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایوبی بھی عدالت میں موجودتھے۔ واضح ہوکہ راجیوگاندھی کے دورحکومت میں جب شہریت ایکٹ میں ترمیم کرکے شہریت کے لئے 25/مارچ 1971کو کٹ آف تاریخ رکھا گیا تھا تو اس ترمیم کو تمام اپوزیشن پارٹیوں نے تسلیم کیا تھا ان میں بی جے پی بھی شامل تھی، جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے آج کی پیش رفت پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں دیکھا جائے تو آسام جیسی حساس ریاست میں این آرسی کا عمل مکمل ہوجانے کے باوجودیہ معاملہ بہت اہم ہے، کیونکہ اگر خدانخواستہ 1951کے شہریت ایکٹ سے مذکورہ ترمیمی دفعہ نکال دی جاتی ہے تو آسام میں ایک بار پھر انسانی بحران کے پیدا ہوجانے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جمعیۃ علماء ہند اس معاملہ کو مضبوطی کے ساتھ سپریم کورٹ میں لڑرہی ہے۔ جمعیۃ علماء آسام کے صدرمولانا مشتاق عنفرنے بھی آج کی پیش رفت پر قدر اطمینان کا اظہار کیا ہے، واضح ہوکہ جمعیۃ علماء آسام روز اول سے آسام شہریت معاملہ میں سرگرم ہے وہ اس کے لئے نہ صرف قانونی جدوجہد کرتی آئی ہے بلکہ زمینی سطح پر بھی اس کے رضاکار لوگوں کی ہرطرح سے مدد کرتے آئے ہیں۔


فضل الرحمن قاسمی
پریس سیکریٹری جمعیۃعلماء ہند

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages