انٹرنیٹ بینکنگ میں دھوکہ دہی کے نت نئے طریقے پر دلچسپ معلومات
نئی دہلی: آپ نے حال ہی میں خبر پڑھی ہوگی کہ دہلی میں ایک شخص کو اس کے فون پر متعدد مس کال موصول ہوئی۔ یہ ایک بلینک کال تھی جس پر کوئی بات نہیں کر رہا تھا۔ اسکے اگلے ہی وقتـــ اس کے بینک اکاؤنٹ سے ٫۵۰ لاکھ روپے کی بڑی رقم نکال لی گئی۔ لوگ عام طور پر کہتے ہیں کہ سم پر مبنی توثیق کیلئے فرد کو ون ٹائم پاس ورڈ (اوٹی پی) کے ذریعے منظور کرنا ہوتا ہے جو وہ اپنے موبائل نمبر پر وصول کرتے ہیں لیکن اس معاملے میں مس کال بھی کافی ہوتی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں سم سوائپ کا بھی طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ سم سوائپ یعنی سم تبدیل کرنا ہی اس وقت ممکن ہوتا ہے جب فریبی گروہ کے پاس آپ کے نمبر کی تمام تفصیل موجود ہو۔ سم سوائپ فراڈ کا طریقہ کار بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اس میں بس انٹرنیٹ پر آپ کے لاپرواہ ہونے کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ سم بدلنے کا عمل دھوکہ باز کو آپ کے فون نمبر تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ سب سے پہلے وہ آپ کے ای میل آئی ڈی پر فشنگ ای میل بھیجیں گے جو مختلف پلیٹ فارم سے اٹھایا گیا ہے۔ وہ آپ کی تمام ذاتی تفصیلات حاصل کرنے کیلئے فرضی کالوں کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ ایک بار جب ان کے پاس تمام مطلوبہ تفصیلات جمع ہوجاتی ہیں، تو وہ ٹیلی کام آپریٹر سے رابطہ کرتے ہیں اور ان سے اپنے فون کے کھو جانے یا پرانی سم کے خراب ہونے جیسی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ڈپلیکیٹ سم جاری کرنے کو کہتے ہیں۔ اگر کمپنی کو جمع کروائی گئی تفصیلات درست ہیں، تو امکان ہے کہ جعلساز آپ کے نمبر پر ایک سم کارڈ حاصل کر سکے گا، اس صورت میں آپ اس فراڈ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اب اگر ڈپلیکیٹ سم فعال ہے، تو آپ دیکھیں گے کہ نمبر پر موجود اصل سم کام کرنا بند کر دے گا کیونکہ کمپنی انہیں اپنے اختتام پر بلاک کر دیتا ہے۔ ان دنوں مختلف اکاؤنٹ تک رسائی کیلئے فون ایک طاقتور ٹول بننے کے بعد حملہ آور پھر آپ کا بینک اکاؤنٹ نمبر بازیافت کر سکتا ہے، منسلک موبائل نمبر پر اوٹی پی حاصل کر سکتا ہے اور بغیر کسی شک کے پیسے نکال سکتا ہے ماہرین اور پولیس کے مطابق اس کا ایک ہی حل ہے کہ آپ انٹرنیٹ کا استعمال کرتے وقت محتاط رہیں اور کسی سے بھی اپنی ذاتی معلومات شیئر نہ کریں۔ انجان آئی ڈی سے بھیجے گئے ای میل نہ کھولیں اور کوئی چیز ڈاؤن لوڈ نہ کریں۔ خاص کر کسی لنک پر کلک نہ کریں جیسا کہ آج کل فری ریچارج والا یا کسی مسجد کے ووٹ لینے کے لئے وغیرہ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں