اسم با مسمی شاعر کامران غنی صبا کی تصنیف ،، پیام صبا (شعری مجموعہ) کا ایک تجزیاتی مطالعہ
مضمون نگار : محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری ،برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ ۔
موبائل نمبر: 7909098319
اردو شاعری صدیوں کا سفر طے کرچکی ہے، اور آج بھی اسے وہی مقبولیت حاصل ہے جو ابتداء میں تھی۔آج بھی اردو شاعری مکمل جواں نظر آتی ہے، کیوں کہ اردو شاعری کا مزاج اور دامن ہمیشہ وسیع و عریض رہا ہے، اس لئے کہ اردو زبان وادب اور شاعری کے اندر وہ کشش اور جاذبیت ہے جو ہر ایک خاص و عام کو اپنی جانب مائل کرتی ہے۔
اور شاعری در اصل نام ہی ہے اپنے احساسات وجذبات اور کیفیات کو اصول وضوابط کی پابندی کے ساتھ اظہار کرنے کا، شاعری اس مختصر عبارت وتحرير کا نام ہے جو بظاہر مختصر معلوم ہوتی ہے لیکن اس کی معنوی خوبیاں، گہرائی وگیرائ اس قدر ہوتی ہے کہ اس کی ابتداء وانتہاء کا تعین کرنا محال ہے، ایک شاعر جب شاعری کی زبان سے لب کشائی کرتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک تاریخ بول رہی ، شاعر کو رب العزت نے ایسی بصیرت وبصارت اور خوبیاں عطا کی ہیں جو اسے اوروں سے ممتاز بناتی ہے ، اس وقت اردو شاعری پورے ہندوستان میں عروج پر ہے، ہندوستان کے ہر شہر وصوبہ میں اردو شاعری کو ایک اہمیت حاصل ہے،
دبستان بہار خصوصیت کے ساتھ دبستان عظیم آباد نے بڑے بڑے شعراء وادباء پیدا کئے ہیں جن کی شاعری ونثر نگاری کی بنیاد پر وہ زیر زمین ہوکر بھی زندہ وجاوید ہیں،اور اسی تاریخ کو دہراتے ہوئے شہر عظیم آباد میں ایک نوعمر شاعر کامران غنی صبا جو اپنے خاص لب و لہجہ اور بیباکی ومضبوطی سے اپنی بات کہنے والا،اپنے موقف پر قائم رہنے والا، خاموشی سے اپنی شاعری اور نثر کے ساتھ اٹھا اور دیکھتے دیکھتے دنیائے ادب پر بادلوں کی طرح چھا کر سیراب کرنے لگا ، جب وہ شاعری کرتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی شاعری ہماری سماعت سے ٹکرا کر جسم وجاں اور روح میں پیوست ہوکر ہمیں بیدار کر رہی ہے، زندگی کی حقیقت سے آشنائی کرا رہی ہے ،اس کی شاعری محض شاعری نہیں بلکہ پیغام ہے ۔اس کی آواز مخالف ہوا دبا نہیں سکتی ، کسی شور میں اس کی آواز گم نہیں ہوسکتی ، شاید وہ جواں شاعر جو دل پر گزرتا ہے اسے بے خوف وخطر قلم سے قرطاس پر رقم کرتا ہے، وہ شعر نہیں کہتا وہ سحر کرتا ہے، آپ کے دل میں ایک گھر بناتا ہے، یقینا وہ ایسا محبوب شاعر اور انسان ہے کہ جو بھی اس کے قریب ہوتا ہے اس کا ہو کر رہ جاتا ہے۔بہت پیارا شاعر اور ایک کامیاب وکامران انسان ہے، وہ ہر لحاظ سے عظیم ہے، خاندانی اعتبار سے بھی وہ بلند ہے،مشہور ومعروف حکیم، عالم دین، عربی اردو وفارسی زبان کے ماہر، مولانا علیم الدین بلخی رح کا نواسہ اور مولانا عثمان غنی رح(مفتی امارت شرعیہ و مدیر ہفت روزہ امارت) کا پوتا، معروف وبیباک صحافی وادیب، ریحان غنی کا فرزند ہے ۔
ہمارے زیر مطالعہ موصوف محترم کی پہلی تصنیف کردہ ”پیام صبا”(شعری مجموعہ ١٢٨/صفحات پر مشتمل ایک شاہکار تصنیف ہے،جسے اردو ڈائریکٹوریٹ، محکمہ کابینہ سکریٹریٹ، پٹنہ (بہار) کے مالی تعاون سے شائع کی گئی ہے ۔
اس تصنیف میں کامران غنی صبا نے انتساب کتاب خدا کے نام پر کرکے بہت بڑا پیغام دیا ہے، اور وہ یہ کہ ہماری زندگی، ہماری سانس، ہماری کامیابی یہ محض اس خدا کا فضل وکرم ہے جس کے قبضہ قدرت میں سارے جہاں کی ملکیت ہے،
مصنف اپنے رب کے سامنے انتساب کے ذریعہ اپنی بندگی کا اظہار اس طرح کررہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہماری عبادت وریاضت، ہماری بندگی، ہماری زندگی وموت، یہ سب محض آپ کی رضا وخوشنودی کے لئے ہے، ہم خالص آپ کے بندے ہیں، اور آپ کی ہی بندگی کرتے ہیں، ہمارا غم، ہماری خوشی، ہماری زندگی،ہماری شاعری اور یہ ہماری تصنیفی کامیابی محض آپ کی رضا کے لئے ہے،
اور یہ واقعی میں اظہار تشکر کا بڑا ذریعہ ہے ، دیگر مصنفین کو بھی اس جانب توجہ کی ضرورت ہے ۔عموماً عیش وعشرت میں بندہ خدا کو فراموش کرجاتا ہے حالانکہ یہ عیش وعشرت وآسودگی نعمتوں کے انبار یہ اللہ کی عطاء کردہ بڑی نعمت ہے موصوف نے حتی الامکان اس تصنیف کے ذریعہ رب کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بھر پور کوششیں کی ہیں، اللہ انہیں شرف قبولیت بخشے ۔
حرف آغاز میں انہوں نے اپنی شعری سفر کا آغاز، اپنی ماضی کی روداد،شاعری اور وصف شاعری کے حوالے سے جو باتیں کہیں ہیں وہ قابل تعریف ہیں ، اس کم عمری میں اللہ رب العزت نے جو سوجھ بوجھ، دور اندیشی، احساسات وجذبات سے بھرا دل، مردم شناس، اور اپنی باتیں مدلل بیان کرنے کا جو سلیقہ دیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔
ساتھ ساتھ آپ نےچند لوگوں کا فرداً فرداً شکریہ بھی ادا کیا ہے جن میں آپ کے والد محترم ریحان غنی، والدہ محترمہ سلمیٰ بلخی، اور اساتذۂ کرام میں پروفیسر اسرائیل رضا، ڈاکٹر جاوید حیات، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، ڈاکٹر اشرف جہاں، سہ ماہی دربھنگہ ٹائمز کے مدیر ڈاکٹر منصور خوشتر، جناب ناصر ناکا گاوا، محترمہ سیدہ زہرہ عمران، ڈاکٹر زرنگار یاسمین، جناب احمد کمال حشمی، جناب طارق متین، جناب احمد اشفاق، ڈاکٹر عبد الرافع، جناب ایم آر چشتی، محترمہ تحسین روزی، جناب مفتی منصور قاسمی، محترمہ نور جمشید پوری، جناب عطا کریم ندوی، جناب اصغر شمیم، محترمہ نرجس فاطمہ، محترمہ انجم اختر،انعام عازمی، طارق عزیز، ہیں ۔
اس کے بعد اردو زبان وادب کے چند مشہور ومعروف ادباء نے کتاب، صاحب کتاب، اور کتاب میں شامل حمد، نعت، منقبت ،غزل اور خصوصاً نظم،، مجھے آزاد ہونا ہے،، کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے وہ واقعی قابل تعریف ہے، ان تعارف کے ذریعہ ہم مصنف شاعر کو بہت قریب سے سمجھ سکتے ہیں، پہچان سکتے ہیں،
حصول برکت ورحمت کے لئے مصنف شاعر نے حمد و نعت اور منقبت سے کتاب میں شعر کا آغاز وانتخاب کیا ۔
حمد و نعت و منقبت کے چند اشعار
التجا
خدائے برتر
میں جانتا ہوں
میں مانتا ہوں
کہ میرا فردِ عمل گناہوں سے بھر چکا ہے
ابل چکا ہے
جو چند قطرات نیکیوں کے
ٹپک رہے ہیں
لرز رہے ہیں
کہ ان کی اوقات کچھ نہیں ہے
وہ بس نمائش کے چند ایسے گہر ہیں
جنکی چمک حقیقت کا روپ بن کر
ڈرا رہی ہے
رُلا رہی ہے
مگر کہیں دور تیری رحمت
مرے گناہوں پہ ہنس رہی ہے
خدائے برتر
اگر یہ سچ ہے
کہ تیری رحمت
مرے گناہوں کی وسعتوں سے
وسیع تر ہے
تو میرے عصیاں کو اپنی رحمت کا لمس دے دے
مری اداسی کے خشک صحرا کو
اپنی رحمت کی بارشوں سے
نہال کر دے۔۔۔ کمال کر دے
لب پہ ذکر حبیب خدا چاہیے
کچھ نہیں، کچھ نہیں، ما سوا چاہئیے
دید کو ان کی چشم رسا چاع
زہد وتقوی سے کچھ ماورا چاہیے
سجدۂ شوق کو اور کیا چاہیے
اپنے محبوب کا نقش پا چاہیے
نہ طلب ہے نام و نمود کی، نہیں چاہیے مجھے خسرو
مجھے بخش دے تو مرے خدا در مصطفیٰ کی گداگری
میں ہوں مبتلائے غم و الم، مرا چارہ ساز نہیں کوئی
تمہیں در دل کی دوا بھی ہو، تمہی غم گسار میرے نبی
میں اٹھاؤں کیسے یہ بار غم تیرا ہجر مجھ پہ عذاب ہے
کبھی بخت میرا بھی جاگ اٹھے، کبھی در پہ ہو مری حاضری
وہ بالیقین حق کا استعارہ، حسین سا کوئی ہے بتاؤ
کہ جس نے جاں دے کے دیں بچایا، حسین سا کوئی ہے بتاؤ
شہادتیں یوں تو اور بھی ہیں تڑپ اٹھیں جن سے دل ہمارے
انہوں نے گھر بار سب لٹایا، حسین سا کوئی ہے بتاؤ
کتاب سے چند نظمیں
مجھے آزاد ہونا ہے۔۔۔
کہاں تک بھاگ پاؤ گے
کہاں کس کو پکارو گے
یہ عزت اور شہرت، علم و حکمت
مال و دولت کی فراوانی
یہیں رہ جائے گی اک دن
بہت ہو گا تو بس اتنا
کہ کچھ دن، کچھ مہینوں تک
تمہارے نام کا چرچا رہے گا
کسی اخبار میں، جلسے میں، محفل میں
بہت ہو گا تو چلئے مان لیتے ہیں
کہیں کوئی
تمہارے نام کو تحقیق کی بھٹی میں ڈالے گا
کوئی کندن بنائے گا، کوئی شہرت کمائے گا
تمہیں اس سے ملے گا کیا؟
کبھی سوچا ہے تم نے؟
غلغلہ جتنا اٹھے جب تک اٹھے
آخر بھلا ڈالیں گے سب تم کو
تمہیں معلوم ہے!
اس زندگی کے سارے شعبوں میں
سیاست میں، صحافت میں، ادب میں،
صوت و رنگ و چنگ میں،
دولت کمانے سینتنے میں اور لٹانے میں
ہزاروں نام ایسے ہیں
کہ جن کے سامنے سورج دیے کی لوَ سا لگتا تھا
مگر کوئی کہاں باقی رہا، دائم رہا
سارے عدم کی راہ کے راہی
کسی ایسے جہانِ بے نشاں میں جا بسے
جانو، کسی کا نام تک کوئی نہیں ہوتا
یہی سب کچھ میں اکثر سوچتا ہوں
اور جب بھی سوچتا ہوں
تب مجھے یہ سب فقط کارِ عبث محسوس ہوتا ہے
مرا جی چاہتا ہے تیاگ کر سب کچھ
کسی گمنام بستی میں چلا جاؤں
جہاں میرے کسی پہچاننے والے
کسی بھی جاننے والے کے جانے کا
کوئی امکاں نہ ہو
اس گوشہء عزلت میں، اس پاتال میں
گم نام ہو جاؤں
مجھے آزاد ہونا ہے
زمانے بھر کی ہر خواہش سے
ہر رعنائی سے جھوٹی نمائش سے
مجھے آزاد ہونا ہے
فنا آغوش
فنا ایسی حقیقت ہے
نہیں کچھ اختلاف اس میں
نہ مذہب کا، نہ دھرتی کا
نہ اعلیٰ کا، نہ ادنیٰ کا
نہ گورے کا، نہ کالے کا
نہ کمزور اور جیالے کا
مگر کیا اس حقیقت سے پرے بھی کچھ حقیقت ہے؟
یہاں آکر
مفکر، شاعر و صوفی، ادیب و فلسفی، عالم
سبھی کو خامشی درپیش ہوتی ہے
ہزاروں نکتہ ور آئے
مگر اس راز سے کوئی نہیں پردہ اٹھا پایا
کہ وہ لمحہ جسے سارے قضا کا نام دیتے ہیں
اس اک لمحے سے آگے ایک برزخ ہے
وہ برزخ بھی حقیقت ہے
کہ اس کے بعد بھی سب کچھ حقیقت ہے
وہ جس اک راز سے پردہ اٹھانے میں
رہے مصروف ساری عمر
اک لمحے میں پردہ اٹھ گیا اس سے
مگر اب ان کے لب ان کے قلم خامو ش ہیں
اور وہ فنا آغوش ہیں سارے
مجھے بھی اک تجسس تھا
کہ دیکھوں تو!
کہ اس لمحے کے برزخ سے پرے کیا ہے
گزشتہ شب، نہ جانے کب
یہی کچھ سوچتے، میں نیند کی آغوش میں پہنچا
تو اک بے شکل سچائی، قریب آئی
کہا دیکھو! مری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھو
وہ میرے سامنے تھی اور
اس کی پشت پر
پردے ہی پردے تھے
کہا اُس نے:
کہ ان پردوں کے پیچھے کیا ہے دیکھو گے؟
اگر تم دیکھنا چاہو
تو مجھ کو دیکھنے کی تاب تو لاو!
تمہیں سب کچھ بتا دوں گی
دکھا دوں گی
ہر اک پردہ اٹھا دوں گی
محبت کی شہادت پر کبھی ماتم نہیں کرنا
یہ کس نے کہہ دیا تم سے؟
’محبت روٹھ جاتی ہے‘
’محبت ٹوٹ جاتی ہے‘
سنو! تم کو بتاتا ہوں
محبت روح ہے اور روح کا رشتہ
ہمارے جسم و جاں سے اس قدر مربوط ہوتا ہے
اجل سے پہلے ہم اس کو
الگ کر ہی نہیں سکتے
سنو! تم کو بتاتا ہوں
کہ رسم و راہ اور قربت
محبت ہو نہیں سکتی
مراسم ختم ہونے سے
محبت مر نہیں سکتی
محبت جاوداں ہوتی ہے
لفظوں کا تعلق ٹوٹ بھی جائے
وصال یار کا دامن اگرچہ چھوٹ بھی جائے
بظاہر پاس ہو کر بھی
بہت سی دوریاں ہو جائیں
بہت مجبوریاں ہو جائیں
دلوں کے مقبرے میں دفن کرنے سے
محبت مر نہیں جاتی
تعلق ٹوٹ جانا تو محبت کی شہادت ہے
اور اس کے بعد جنت ہے
سو ائے جانِ وفا سن لو!
محبت کی شہادت پر کبھی ماتم نہیں کرنا
امی کے نام
(ان کی سالگرہ پر لفظوں کا ایک چھوٹا سا تحفہ)
پیاری امی!
سالگرہ پر
آپ کو کون سا تحفہ دوں میں؟
پھول تو کل مرجھا جائیں گے
اور خوشبو بھی اُڑ جائے گی
سونے چاندی کے سب گہنے
بہن کے حصے میں جائیں گے
سوٹ کوئی اچھا سا کہیے
یا کچھ ناول اور کتابیں؟
لیکن یہ ساری چیزیں بھی
شیلف کی زینت بن جائیں گی
اچھا! امی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ٓآپ کو لفظوں سے الفت ہے
آپ نے ہم کو بچپن میں ہی سمجھایا تھا
لفظوں کو ہی دوست بنانا
لفظ ہمیشہ ساتھ رہیں گے
لفظ ہمیشہ سچ بولیں گے
لفظ محبت بن جائیں گے
لفظ عبادت بن جائیں گے
پیاری امی! سالگرہ پر
لفظوں کی میں کچھ سوغاتیں
لے کر خدمت میں حاضر ہوں
لفظ دعائوں کی صورت میں
لفظ عقیدت ، لفظ محبت
لفظ ندامت کے پیکر میں
آنکھوں سے اشکوں کی صورت
ٹپک رہے ہیں
پیار کے یہ دو سچے موتی
آپ کو اچھے لگتے ہیں نا؟
عید کا چاند
عید کا چاند تو خوشیوں کی علامت ہے مگر
درد والوں کے لیے زخم ہے رستا ہوا زخم
درد غربت کا اگر ہو تو یہی عید کا چاند
مسکراتا ہوا غربت کا اڑاتا ہے مذاق
اور اگر درد محبت میں ہم ایسا کوئی
ہجر کی رات کو اوڑھے ہوئے سو جاتا ہے
چاند پلکوں پہ ستاروں کو سجا دیتا ہے
کتنے خوابیدہ چراغوں کو جگا دیتا ہے
شاعرو، صوفیو، عقل والو! اٹھو
کیا ہوا۔۔۔۔؟
امن کے سب پیمبر کہاں کھو گئے؟
وہ جو نغمے محبت کے گاتے تھے اور
جن کی آواز سے
نفرتوں کے اندھیرے بھی چھٹ جاتے تھے
فاصلے سارے پل میں سمٹ جاتے تھے
شاعرو، صوفیو! تم بھی خاموش ہو۔۔۔۔۔؟
اب تمہارے یہاں کوئی ساحرؔ نہیں؟
کوئی نانکؔ نہیں، کوئی چشتیؔ نہیں؟
تم اگر ٹھان لو
وقت کے بہتے دریا کا رُخ موڑ دو
اور نفرت کے ہر ایک بت توڑ دو
جنگ سے مسئلے
حل ہوئے تھے، ہوئے ہیں نہ ہو پائیں گے
گھر ہمارے جلے
تو تمہارے بھی گھر تک دھواں جائے گا
لاش اور خون، آہ بکا سے
بصارت، سماعت کو کس کی قرار آئے گا؟
شاعرو! صوفیو! عقل والو ! اٹھو ۔۔۔
اس سے پہلے کے نفرت کی چنگاریاں
آگ بن جائیں اور
گھر ہمارے جلیں، گھر تمہارے جلیں۔۔۔۔
ایسی چنگاریوں کو بجھا ڈالیں ہم
شاعرو، صوفیو، عقل والو! اٹھو
کتاب میں شامل غزل کے چند اشعار
ہر شخص ہے کیوں لرزہ بر اندام مری جاں
وہ کیا ہے، کوئی غازئ اسلام مری جاں؟
لازم نہیں لفظوں سے ہی اظہار وفا ہو
آنکھیں بھی سنا دیتی ہیں پیغام مری جاں
کبھی زمیں تو کبھی آسماں سے بولتا ہے
وہ اپنے درد کو سارے جہاں سے بولتا ہے
میں اعتبار کروں کیسے اس کی باتوں پر
وہ شخص اور کسی کی زباں سے بولتا ہے
درد جس میں نہ ہو اس دل کی حقیقت کیسی
ہجر کا غم ہی نہیں ہو تو محبت کیسی
سچ نہیں بولنے کی سب نے قسم کھائی ہے
آئینہ جھوٹ اگر بولے تو حیرت کیسی
اپنی پلکوں پہ کوئی خواب سجایا نہ کرو
ٹوٹ جاؤ گے مری طرح، تم ایسا نہ کرو
مری دنیا میں بجز کرب رکھا ہی کیا ہے
گر مجھے دیکھ لو جینے کی تمنا نہ کرو
غم حیات کو لکھا کتاب کی مانند
اور ایک نام کہ ہے انتساب کی مانند
نہ جانے کہ دیا کس بے خودی میں ساقی نے
سرور تشنہ لبی ہے شراب کی مانند
طبیعت مضطرب بے چین دل یہ کیا ہوا مجھ کو
ترے طرزِ تغافل نے پریشاں کردیا مجھ کو
شب فرقت میں کیا گزری دل درد آشنا تجھ پر
میں ان سے پوچھنے کو تھا دکھایا آئینہ مجھ کو۔
کامران غنی صبا سچا شاعر اوراچھا انسان کی طرح انسانیت کے لیے دھڑکتا دل بھی رکھتا ہے، نثر ہو کہ نظم ان کی عبارت سے یہ خوبیاں صاف ظاہر ہیں ۔ان کے ذہنی پس منظر میں اسلامی روایات سے سرشار ہیں ، ان کے جذبات واحساسات قوم وملت کے درد سے مملو ہیں، اسی دردمندی سے انہوں نے الفاظ کے موتی اور مفاہیم کی سوغات سے شاعری کا دامن وسیع وعریض کردیا ہے ۔
خیالات کی بلندیاں اُن کی شاعری میں ہے ۔جو نظریات وہ پیش کرتے ہیں وہ خود میں ایک نذیر ہے ۔جو احساسات ان کی نظموں اور غزلوں میں جھلکتے ہیں وہ اُن کے مزاج کا حسیں عکس وآئینہ ہے ۔
اور ان کے مزاج میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، وہ حسن سیرت وصورت کے جوہر سے بھی سجے سجائے نظر آتے ہیں اور ان أوصاف کے اثرات ان کی شاعری پر بھی غالب ہیں ، نمایاں ہیں ۔
یقیناً آپ کی شاعری میں انقلاب بھی ہے، وقت وحالات کی نزاکت بھی،
اِن کا شمار ملک کے اُن شاعروں میں ہے جن کے یہاں افکار ونظریات ، جذبات وتخیلات اور الفاظ ومعانی کے درمیان ایک ربط وتسلسل اور روانی پائی جاتی ہے ، ان کی شاعری نظم ہو یا غزل زندگی کی عکاسی، حالات وواقعات کی صحیح نمائندگی وترجمانی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے بہت قریب سے زندگی کے خزاں وبہار کو دیکھا ہے ۔
کیوں کہ اس دور انسان جن مسائل کا سامنا کر رہا ہے ان میں عدم تحفظ ،غم روزگار، غم تنہائی وکرب ،احساس کمتری، بے چارگی،خوف وحراس ،خود سے اور زندگی سے بے زاری، اس طرح کے ڈھیروں مسائل ومصائب سامنے ہیں، کامران غنی صبا نے اپنی شاعری میں انہیں جگہ دی ہیں ۔ مگر ان کے یہاں فکر وفن اور خیالات کی بلندی وگہرائ ہر جگہ نمایاں ہے۔وہ ضخامت الفاظ کے بجائے عام فہم اور سادے الفاظ وتراکیب ہی کے ذریعہ اپنے اشعار کو کمال ہنر مندی سے نئے معنی و مفہوم میں پیش کرتے ہیں ۔ان کے یہاں خود کلامی بھی ہے، اور کبھی کبھی وہ سوال بھی قائم کرتے ہیں اور نہایت سادگی اور پر لطف اندوز سے بہت کچھ کہہ جاتے ہیں ۔ان کا دھیما لہجہ بہت مشہور اور دل کو چھو نے والا ہوتا ہے۔ان کے یہاں تشبیہ و استعارہ،علامات اور پیکر تراشی کا عمل بھی دیکھنے کو ملتا ہے لیکن ان الفاظ کے استعمال سے ان کے یہاں کسی طرح کی عبارت میں پیچیدگی پیدا نہیں ہوتی۔
مضمون چونکہ پیام صبا (شعری مجموعہ) کے مطالعہ پر ہے اسی وجہ سے باتیں صرف پیام صبا سے متعلق ہوسکی ، ان کے علاوہ اور بھی بہت سے منظوم کلام اور نثر بھی ہیں جن پر گفتگو ہو سکتی ہے۔ہم برادرم کامران غنی صبا کو مبارک بادی پیش کرتے ہیں اور ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ اللہ انہیں دونوں جہاں میں کامیاب وکامران بنائے، آمین ثم آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں