src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> ٹیپو سلطان - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

اتوار، 20 نومبر، 2022

ٹیپو سلطان



 

ٹیپو سلطان



ٹیپو سلطان نے جاگیرداری کا خاتمہ کرکے  کسانوں کو زمین کا مالک قرار دیا تھا۔ زمین صرف اس کی تھی جو ہل چلائے۔ ٹیپو سلطان  کو ایک مجاہدِ آزادی کے طور پر تو سب جانتے ہیں  لیکن ٹیپو سلطان ایک بہترین منتظم  اور غیر معمولی بصیرت رکھنے والے  عوامی رہنما اور قائد بھی تھے۔اپنے 17 سالہ عہدِ حکومت (1782۔1799ء) میں زراعت کی ترقی، آب رسانی کی سہولتوں میں اضافے، نہروں اور تالابوں اور سڑکوں اور پلوں، بندرگاہوں اور نئے شہروں کی تعمیر، چھوٹی بڑی صنعتوں کی ترقی، فوجی و انتظامی اصلاحات اور بیرون ملک و پڑوسی حکمرانوں سے سفارتی روابط اور داخلی معاملات پر گفت و شنید جیسے اہم انتظامی و تعمیراتی امور میں الجھا رہا۔ اس کی شہادت کے بعد اس کے ذخیرے سے ملنے والے چار ہزار سے زائد خطوط کے موضوعات و مندرجات اس کی ایسی کارگزاریوں کا واضح ثبوت ہیں۔ 



ٹیپو سلطان نے تخت نشینی کے بعد  اپنی رعایا کے نام جو پہلا سرکاری فرمان جاری کیا اس میں بلاتفریق مذہب و ملت اپنی رعایا کی اخلاقی اصلاح، ان کی خوشحالی، معاشی و سیاسی ترقی، عدل و انصاف، جاگیرداروں اور زمین داروں کے ظلم و ستم سے نجات، مذہبی و لسانی و طبقاتی عصبیت کے خاتمہ، اور دفاع وطن کے لیے جان کی بازی لگادینے کا عزم کیا۔



 اس نے جمہوری تقاضوں کے پیش نظر ایک مجلس شوریٰ قائم کی جس کا نام ’مجلس غم نباشد‘تھا۔  سرنگا پٹم میں جامع الامور کے نام سے ایک یونیورسٹی قائم کی ۔



ٹیپو سلطان کو جدت و اختراعات کا خاص شوق تھا۔کئی شہروں کے نام بدل ڈالے۔ مثلاً بنگلور کا نام دارالسرور، کالی کٹ کا اسلام آباد، میسور کا نظر آباد، اور مینگلور کا جمال آباد رکھا۔ وزن اور پیمانوں کے نام بھی تبدیل کردیے۔نیا روپیہ جاری کیااور مختلف نسبتوں سے ان کے نام رکھے مثلاً احمدی، صدیقی، فاروقی، حیدری وغیرہ۔ نئی وضع کی بندوقیں اور توپیں بنوائیں، ایسی ڈھالیں تیار کرائیں جن پر تیر یا گولی کا اثر نہیں ہوتا تھا۔



ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ٹیپو سلطان نے مردم شماری کرائی۔ پنچایت راج کی بنیاد رکھی۔  میزائل ایجاد کرنے کا سہرا بھی اسی کے سر تھا۔ حتیٰ کہ امریکیوں نے بھی اس کو راکٹ کے بانیوں میں شمار کیا ہے۔


ٹیپو سلطان نے ہر ہر شہر، قصبہ اور قلعہ کے چار دروازے مقرر کیے جہاں پہرے دار مقرر کیے  جس مقام پر چوری ہوجاتی، وہاں کے پولیس افسر کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا۔ اگر مجرم گرفتار نہ ہوسکتا تو پولیس افسران کی تنخواہ سے اس کی تلافی کی جاتی۔ ان مقامات پر جہاں ڈاکوئوں کے حملہ کا خطرہ رہتا تھا، وہاں کے رہنے والوں کو آتشیں اسلحہ رکھنے کی عام اجازت دی جاتی۔  ہر شہر میں قاضی اور ہر گائوں میں پنچائت مقدموں کا فیصلہ کرتی۔  اپیل کیلئے صدر عدالت (ہائیکورٹ) تھی۔


    ٹیپو سلطان نے مجرموں کو سزا کا ایک نیا طریقہ نکالا.  مجرم کو اس کے جرم کی مناسبت سے ایک درخت لگانے اور پروان چڑھانے کی ذمہ داری سونپی جاتی۔ معمولی جرم کے لیے ایسا درخت جس کیلئے کم  عرصہ لگتا اور سنگین جرم کیلئے ایسا درخت  جس کیلئے کافی محنت و مہلت درکار ہوتی۔



ٹیپو سلطان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اردو اخبار کا بانی تھا۔ 1794ء میں اس نے اپنی ذاتی نگرانی و سرپرستی میں ایک ہفت روزہ جاری کیا۔ اس ہفت روزہ میں سلطنت کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے سپاہیوں کے نام سلطان کی ہدایات شائع ہوتی تھیں۔ یہ ہفت روزہ سلطان کی شہادت تک مسلسل پانچ سال پابندی سے شائع ہوتا رہا۔



ٹیپو سلطان  نے غلاموں اور لڑکیوں کی خرید و فروخت بالکل بند کردی۔ ان کے لیے یتیم خانے بنائے۔ زمین داریوں کا خاتمہ کرکے مزدوروں اور کسانوں کو زمین کا مالک قرار دیا۔ زمین کو رعایا کی ملکیت قرار دیا گیا، زمین پر کسانوں کا دوامی قبضہ تسلیم کرلیا گیا۔ زمین صرف اس کی تھی جو ہل چلائے۔ ٹیپوسلطان نے احکام جاری کردیے تھے کہ جو شخص زمین کے لیے درخواست کرے،اسے اس کی ضرورت کے مطابق زمین مفت دی جائے۔ تجارت کی توسیع کے لیے بیرونی ملکوں سے روابط پیدا کیے۔ دور دور سے کاریگر بلا کر اپنے ہاں ہر قسم کی صنعتیں جاری کیں۔ دوسرے ممالک سے ریشم کے کیڑے منگوا کر ان کی پرورش و پرداخت کا طریقہ اپنی رعایا کو سکھایا۔ اس کے علاوہ جواہر تراشی اور اسلحہ سازی کے کارخانے بھی قائم کیے۔ ان کارخانوں میں گھڑی سازی اور قینچیوں کا کام بھی ہوتا تھا۔ ان کارخانوں کے قیام سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ضرورت کی ہر چیز اب سلطنت میں تیار ہونے لگی۔ درآمدات پر انحصار کم ہوگیا اور  چیزیں برآمد ہونے لگیں۔ ہزاروں کو روزگار ملا۔



ٹیپو سلطان نے ایک نئی تجارتی پالیسی وضع کی جس کے تحت بیرونی ممالک ایران، ترکی اور حجاز وغیرہ سے مسلم تاجروں کو آکر تجارت کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے خصوصی رعایتں دیں۔ خود حکومت کی زیر سرپرستی ایک بڑی تجارتی کمپنی بھی قائم کی گئی جس میں  ہر شخص  سرمایہ لگا کر  شریک ہوسکتا تھا۔



سلطان نے جہاں جاگیرداری کو ختم کیا، وہاں سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات کیے۔ تمام سلطنت میں، رعایا، تاجروں اور کاشتکاروں کے لیے بنک جاری کیے۔ ان میں خاص بات یہ تھی کہ غریب طبقہ اور چھوٹے سرمایہ داروں کو زیادہ منافع دیا جاتا تھا۔ ان تمام اصلاحات اور سلطان کی جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان کے تمام علاقوں میں میسور سب سے زیادہ خوشحال اور سرسبزو شاداب علاقہ ہوگیا۔



 کیپٹن لٹل جس نے میسور کی تیسری جنگ میں نمایاں حصہ لیا تھا، اپنی یادداشتوں میں لکھا :

’’ٹیپو کے متعلق بہت سی افواہیں سنی جاتی تھیں کہ وہ ایک جابر و ظالم حکمران ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی تمام رعایا اس سے بے زار ہے۔ لیکن جب ہم اس کے ملک میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ صنعت و حرفت کی روز افزوں ترقی کی وجہ سے نئے نئے شہر آباد ہوئے اور ہوتے جارہے ہیں۔ رعایا اپنے کاموں میں مصروف و منہمک ہے۔ زمین کا کوئی حصہ بھی بنجر نظر نہیں آتا۔ قابل کاشت زمین جس قدر بھی مل سکتی ہے اس پر کھیتیاں لہرارہی ہیں۔ ایک انچ زمین بھی بیکار نہیں پائی گئی۔ رعایا اورفوج کے دل میں بادشاہ کا احترام اور محبت بدرجہ اتم موجود ہے۔ فوج کی تنظیم اور اس کے ہتھیاروں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ یورپ کے کسی مہذب ملک کی فوج سے کسی حالت میں پیچھے نہیں ہے۔


 ’’معارف مجلّۂ تحقیق‘‘۔ جولائی تا دسمبر ۲۰۱۱

اسلم ملک کی وال سے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages