src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> پلیس آف ورشپ قانو ن کی آئینی حیثیت پر 11/اکتوبر کو اگلی سماعت مسلمان عبادت گاہوں سے دستبردار نہیں ہوسکتا، قانونی لڑائی کے لیئے جمعیۃ علماء تیار ہے: گلزاراعظمی - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

ہفتہ، 10 ستمبر، 2022

پلیس آف ورشپ قانو ن کی آئینی حیثیت پر 11/اکتوبر کو اگلی سماعت مسلمان عبادت گاہوں سے دستبردار نہیں ہوسکتا، قانونی لڑائی کے لیئے جمعیۃ علماء تیار ہے: گلزاراعظمی




 

پلیس آف ورشپ قانو ن کی آئینی حیثیت پر 11/اکتوبر کو اگلی سماعت مسلمان عبادت گاہوں سے دستبردار نہیں ہوسکتا، قانونی لڑائی کے لئے جمعیۃ علماء تیار ہے: گلزار اعظمی





نئی دہلی  10/ستمبر2022 : پلیس آف ورشپ ایکٹ یعنی عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو ختم کرنے والی عرضداشتوں پر کل سپریم کورٹ آف انڈیا میں گذشتہ کل سماعت عمل میں آئی جس کے دوران عدالت نے جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل دو درخواستیں برائے انٹر وینراور ایک تازہ پٹیشن کو سماعت کے لیئے منظور کرلیا حالانکہ مخالف فریق نے صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل تازہ عرضداشت جس کا ڈائری نمبر 28081/2022 کی سماعت کی سخت مخالفت کی تھی مگر اسے قبو ل نہیں کیا گیا۔چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس یو یو للت کی سربراہی والی تین رکنی بینچ جس میں جسٹس ایس رویندر بھٹ، جسٹس پی شری نرسہما شامل ہیں، جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے پیش ہونے والے وکلاء اعجاز مقبول اور گورو اگروال کے دلائل کی سماعت کے بعد حکم دیا کہ اس معاملے میں داخل تمام عرضداشتوں کو یکجا کرے اس پر تین رکنی بینچ 11/اکتوبر کو سماعت کریگی۔چیف جسٹس آف انڈیا نے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا کو حکم دیا کہ وہ دو ہفتوں کے اندر عدالت میں مرکزی حکومت کا موقف واضح کریں۔


 دوران سماعت فریق مخالف نے عدالت سے گذارش کی کہ اس معاملے کی سماعت کثیر رکنی آئینی بینچ سے کرائے جس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ تین رکنی بینچ 11/ اکتوبر 2022کویہ فیصلہ کریگی کہ آیا اس معاملے کی سماعت تین رکنی بینچ کرے یا کثیر رکنی آئینی بینچ۔چیف جسٹس آف انڈیا نے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل مداخلت کار اور رٹ پٹیشن کی نقول فریق مخالف بشمول حکومت ہند کو بذریعہ ایمیل روانہ کی جائے اور اگلی سماعت سے قبل تمام فریقین مختصر تحریری جواب بھی عدالت میں داخل کریں۔دوران سماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے اشونی کمار اپادھیائے (ایڈوکیٹ)، ڈاکٹر سبرمنیم سوامی اور دیگر وکلاء نے عدالت کوبتایا کہ پلیس آف ورشپ قانون کی وجہ سے ہندوؤں کو ان کے مقدس مقامات حاصل کرنے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے نیز یہ قانون آئین ہند میں دیئے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے لہذا سے ختم کیاجائے۔ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے عدالت سے گذارش کی کہ جس طرح بابری مسجد کو پلیس آف ورشپ قانون سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا کاشی، متھرا، گیان واپی مقامات کو بھی مستثنیٰ رکھا جائے جس پر عدالت نے انہیں کہاکہ وہ اپنا تحریری جواب داخل کریں نیز عدالت اس قانون کی قانونی حیثیت پر فی الحال کسی بھی طرح کا حکم جاری کرنے کے حق میں نہیں ہے یعنی کے پلیس آف ورشپ قانون کے مطابق عبادت گاہوں کی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔


اسی درمیان ایڈوکیٹ اعجاز مقبول اور ایڈوکیٹ گورو اگروال نے عدالت کو بتایا کہ پلیس آف ورشپ قانون 1991 نافذکرنے کا دو مقصد تھا، پہلا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی مذہبی مقام کی تبدیلی کو روکنا اور دوسرا مقصد یہ تھا 1947  کے وقت عبادت گاہیں جس حال میں تھی اسی حال میں اسے رہنے دینا اور ان دونوں مقاصد کو بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ کے فیصلہ میں عدالت نے مانا ہے۔ پلیس آف ورشپ قانون آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہے اس بات کا ذکر بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں کیا گیا ہے(پیرگراف 99، صفحہ 250)نیز اس قانون کی حفاظت کرنا سیکولرملک کی ذمہ داری ہے اور سیکولر ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرے۔عرضداشت میں مزیدکہاگیا ہے کہ بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں پانچ ججوں کی آئینی بینچ نے پلیس آف ورشپ قانون کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے جس کے مطابق یہ قانون آئین ہند کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے نیز اس قانون کی دفعہ 4 عبادت گاہوں کی تبدیلی کو روکتا ہے اور یہ قانون بنا کر حکومت نے آئینی ذمہ داری لی ہے کہ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرے گی اور یہ قانون بنانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ سیکولر ازم کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے لہذا  سپریم کورٹ آف انڈیا پلیس آف ورشپ ایکٹ کی حقیقی حفاظت کرے اور اس کے موثر نفاذ کے لیئے فوری اقدامات کرے تاکہ ایک مخصوص طبقے کی جانب سے کی جانے والی بے لگام قانونی چارہ جوئی پر لگام لک سکے۔ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے عدالت کو مزید بتایا کہ پلیس آف ورشپ قانون کا موثر نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے مسلم عبادت گاہوں بشمول گیان واپی مسجد، قطب مینار، متھرا کی عیدگاہ کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے نیزملک کی مختلف عدالتوں میں مقدمات قائم کرکے مسلمانوں کوپریشان کیا جارہا ہے جبکہ عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا لہذا پلیس آف ورشپ قانون کو چیلنج کرنے والی تمام عرضداشتوں کو خارج کیا جائے۔ دوران سماعت آج عدالت میں جمعیۃعلماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ گورو اگروال، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ سیف ضیاء و دیگر موجود تھے۔


اس معاملے میں مدعی بنے جمعیۃ علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی نے عدالتی پیش رفت پر کہا کہ اب جبکہ عدالت نے جمعیۃ علماء ہند کی مداخلت کو قبول کرلیا ہے، عدالت کے سامنے ہمارے وکلاء موجودہ پلیس آف ورشپ قانون کی آئینی حیثیت برقرار رکھنے اور اس کی حفاظت و موثر نفاذ پر بحث کریں گے۔

گلزار اعظمی نے مزید کہا کہ بھائی چارگی کے نام پر مسلمانوں کا عبادت گاہوں سے دستبردار ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، عدالت عظمی میں قانونی لڑائی کے لئے جمعیۃ علماء تیار ہے۔



       

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages