علامہ اقبال کا یوم پیدائش اور عالمی یوم اردو
9 نومبر 1877 کواردو زبان کا شاعر مرد مومن،صداقت کا علم بردار،نوجوانوں کے لئے مشعل راہ جو بچوں کے لئے پر شفیق مگر ناصح شاعر جس نے عہد طفلی ، بچے کی دعا ، ماں کا خواب ،پہاڑ اور گلہری ،گاے اور بکری ،مکڑا اور مکھی جیسی لطیف مگر سبق آموز نظمیں تخلیق کیں جس نے وطن عزیز کے لئے ہمالہ ،تصویر درد، اور ترانۂ ہندی جیسی شاہکار اور حب الوطنی کے پاکیزہ جذبات سے معمور نظمیں تحریر کیں ،جس نے مسلمانوں کے خوبیدہ احساسات کو جگانے کےلئے شکوہ اور جواب شکوہ اور طلوع اسلام، خطاب جوانان اسلام جیسی اعلی پایہ کی نظمیں لکھ کر ملک، قوم اور مذہب سے والہانہ محبت کو پیش کیا ہے وہ کہتے رہے قوم مذہب سے ہے ،مذہب جو نہیں تم بھی نہیں اور دعا کرتے رہے۔
یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے ،جو روح کو تڑپا دے
جس نے پی ایچ ڈی کی ڈگری تو جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے حاصل کی مگر جس کی قابلیت اور عظمت کا اعتراف پانچ پانچ یونیورسٹیوں نے کیا ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے 1933،ڈھاکہ یونیورسٹی نے1936،یونیورسٹی آف الہ آباد نے 1937 اور عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد نے 1938 میں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا علامہ اقبال کی ادبی خدمات سے ہر کس وناکس واقف ہے اور ان کے بامقصد اشعار زندگی کے ہر میدان خواہ وہ دین ہو دنیا ہو اخوت ہو محبت ہو شجاعت ہو عدالت ہو صحافت ہو مشعل راہ کا کام کرتے ہیں، جن کے اشعار حوصلہ بھی بخشتے ہیں اور تدبیر کے دست زریں ست درخشاں تقدیر کا راستہ ہموار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، جن کے اشعار کفر سے روکتے ہیں انسان کو ناامید نہیں ہونے دیتے جو انسان سے کہتے ہیں نہ ہو نا امید ،نامیدی زوال علم و عرفاں ہے ۔جو خودی کا سبق یوں پڑھاتے رہے
خودی کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سےخود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ؟
جس نے ساری زندگی اخوت کا بیاں ہوجا ،محبت کی زباں ہوجا کا درس دیا جس نے ہندوستان کو سارے جہاں سے اچھا بتایا جس نے محبت کا راگ سنایا مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا جسے پوری اردو دنیا شاعر مشرق، شاعر انقلاب علامہ اقبال کے نام سے جانتی ہے ۔ علامہ اقبال کے یوم پیدائش کو بطور یوم اردو منانے کی جو روایت شروع کی گئ ہے اسے ہمیشہ جاری و ساری رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم صرف ان شاعری پر سر نہ دھنیں بلکہ ان کی شاعری میں جو پیغام ہے اس کو سمجھیں ان کے مقصد کو سمجھیں اور اپنے کردار میں اتارنے کی پوری کوشش کریں وہ ہمارے سماج کے مردوں کو یقیں محکم، عمل پیہم محبت فاتح عالم کا فلسفہ سکھاتے رہے اس فلسفہ کو سیکھنا بہت ضروری ہے۔بھارت میں ہر سال علامہ اقبال کے یوم پیدائش کو یوم اردو کے طور پر یاد کیا جاتا ہے آئیے آج یوم اردو پر احتساب کریں کہ اردو زبان کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہے ؟ ہم اردو زبان کو اپنی عملی زندگی میں اورکتنی جگہ اور اہمیت دیتے ہیں ؟ ہم سب کتنی درخواستیں اردو زبان میں لکھتے ہیں؟ ہم سب کتنے اردو رسائل خرید کر پڑھتے پڑھتے ہیں؟ ہمارے یہاں اردو اخبار آتا ہے یا نہیں؟ ہم اپنے بچوں یا آس پاس کے بچوں کو اردو زبان سکھانے کے لئے چوبیس گھنٹوں میں کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنے خطوط پر اردو زبان میں پتے تحریر کرتے ہیں؟ اردو رسم الخط کا روز مرہ کی زندگی میں رائج ہونا بہت ضروری ہے ۔ اردو خالص ہندوستانی زبان ہے یعنی جس کا وطن عزیز ہندوستاں ہے مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ اپنے ہی وطن میں اپنے ہم وطنوں اور بر سر اقتدار حکومتوں نے اردو زبان کے ساتھ جو سوتیلا رویہ اپنا رکھا ہے اس پر صرف افسوس نہ کریں بلکہ اردو زبان کے ساتھ جو زیادتیاں ہم سب نے کی ہیں اس کا ازالہ کریں اردو زبان کا کھویا ہوا افتخار اور سنہرا دور واپس دلائیں جو اس زبان کا حق ہے ۔ یوم اردو کو صرف بیاد علامہ اقبال نہ منائیں بلکہ اردو زبان کے فروغ کے لئے ہم اور آپ کیا کر رہے ہیں؟ اور مزید کیا کر سکتے ہیں؟ اقبال کی تعلیمات پر غور وخوض کریں اپنے سوے ہوے احساسات کو جگانے کے لئے بار بار شکوہ جواب شکوہ اور مسدس حالی پڑھئے اپنے بچوں کو پڑھائئے پوری دنیا میں لوگ اردو زبان کو پسند کرتے ہیں محبت کرتے ہیں، لندن،امریکہ جاپان ،کینیڈا، جرمنی، مصر،بنگلہ دیش، ماریشس جیسے ملکوں میں اردو زبان کے رسائل ،جرائد، جرنلس اخبارات شائع کئے جارہے ہیں ۔ادب تخلیق کئے جارہے ہیں، تحقیق کی جارہی ہے۔بین الاقوامی سطح پر اردو زبان و ادب سے محبت اور اردو زبان کی تخلیقات و تحقیات کا مطالعہ کرتی ہوں تو علی سردار جعفری کے شعر کا ایک مصرع یاد آجاتا ہے ۔
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اور موجودہ دور کے ایک نوجوان شاعر فرقان سردھنوی نے اردو زبان کی بین الاقوامی شہرت کے حوالے بھی ایک خوبصورت شعر کہا ہے ،
اعلان کر رہی ہے یہ اردو ادھر ادھر
محسوس کیجئے میری خوشبو ادھر
اردو زبان کے اسلوب ،لب ولہجہ تہذیب و ثقافت کی خوشبو ہو یا شیرینئ گفتار کی حلاوت ہو یا حسن بیان کا سلیقہ تمام خوبیاں اردو زبان کی گھٹی میں پلی ہیں اردو زبان کی شان میں داغ دہلوی کے دو اشعار پیش کرتی ہوں ملاحظہ فرمائیں ۔
نہیں کھیل اے داغ یار و ں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
داغ دہلوی یہ بھی فرماگئے کہ
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں دؔاغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اردو زبان کی شیرینی اور مٹھاس کے تو سبھی قائل ہیں خواہ وہ حالؔی ہوں یا فراؔق گورکھپوری ،حالی نے کہا
شہدو شکر سے شیریں اردو زباں ہماری
ہوتی ہے جس کے بولے میٹھی زباں ہماری
اور رگھوپتی سہاے جسے ادب کی دنیا فرؔاق گورکھپوری کے نام سے جانتی ہے وہ بھی اردو زبان کے حسن بیان پر کیا معرکے کا شعر کہہ گئے
میری گھٹی میں پلی تھی ہوکے حل اردو زباں
جو بھی میں کہتا گیا حسن بیاں بنتاگیا
مگر آج اردو کے لئے ہندستان کا دامن کیوں تنگ ہوتا جارہا ہے یہ غور کرنے کا مقام ہے ؟ آج صارفیت کا دور ہے ضرورت پیدا کرنی پڑتی ہے ، بازار میں وہی سکہ چلتا ہے جو رائج الوقت ہو اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان کہہ کر اسے دھیرے دھیرے اسکولوں اور سرکاری دفاتر اور بازاروں اور اب تو گھروں سے بھی بر طرف کر دیا گیا ہے ۔ ہم سب نے انگریزی پڑھنے اور پڑھانے کے چکر میں اردو زبان کو فراموش کر دیا ۔ہر جگہ انگلش میڈیم اسکول کھولے جانے لگے ۔ انگریزی کے اخبارات انگریزی میں ہی درخواستیں انگریزی میں پتے انگریزی میں دکانوں اور مکانوں کی تختیاں انگریزی کی چکا چوند کے سامنے اردو زبان اور اردو رسمالخط کی آب و تاب ماند پڑ گئ اور دھیرے دھیرے گمنامی کے اندھیرے میں ڈوب گئ ۔ اب تو تہذیب بھی زوال پذیر ہو گئ ہے ۔السلام علیکم سے پہلے ہیلو ہائے زبان پر ہوتا ہے خدا حافط کی جگہ باے نے قبضہ کر لیا ابا جان اور ابو جان جیسے محبت اور احترام سے پکارے جانے الفاظ کو پاپا ،ڈیڈی اور ڈیڈ نے دبوچ لیا امی جان ،اماں ،اماں بی ،اموں جیسے پیارے اور شفیق القابات کو مما اور مام نے اچک لیا بھائ جان ،بھیا ،برادرم جیسے الفاظ برو میں تبدیل ہوگئے آپا جان ،اپیا ،آپی ،باجی جان ہمشیرہ جیسے مہزب الفاظ سسٹر اور سس ہوگئے نانا نانی ،دادا دادی گرینڈ فادر اور گرینڈ مدر بن گئے ،ماموں خالو چچا،پھپھا سب انکل اور خالہ، پھوپھی،چچی ،ممانی سبھی رشتے ایک آنٹی میں ضم ہو گئے ۔ اردو زبان کے شاعر روش صدیقی نے بجا فرمایا تھا
اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے
وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئ
حالانکہ سی بی ایس سی بورڈ کے لئے این سی آرٹی کی کتابیں استعمال ہوتی ہیں اور این سی آرٹی میں اردو میڈیم تمام مضامین سائنس ،تاریخ ،جغرافیہ، ریاضی ،کمیپیوٹر، امور خانہ داری ،سبھی موجود ہیں اس کے علاوہ بی ایڈ کی تعلیم اور ٹرینگ بھی موجود ہے ، ضرورت ہے اردو زبان میں بنیاد سے اعلی تعلیم تک حصول علم کی جو لوگ متمول ہیں اور تعلیم کے میدان میں بڑے بڑے اسکول اور کالج چلا رہے ہیں وہ لوگ اردو میڈیم کے جدید علوم و فنون سے آراستہ اسکولوں کا آغاز کریں کریں ۔ اور تمام لوگوں سے بلا تفریق مذہب و ملت اپیل کریں کہ وہ بچوں کو اردو میڈیم تعلیم کی طرف راغب کریں جب بنیاد سے اردو زبان میں تعلیم رائج ہوگی اور پڑھنے والوں کی تعداد اکثریت میں ہوگی اور مقابلہ جاتی امتحانات میں طلبہ کثرت سے اردو زبان کو ترجیح دینگے تو کوئ بھی حکومت اردو زبان کو نظر انداز نہیں کر سکے گی اور یہی حکمت عملی۔ داغ دہلوی، مومن میر ،غالب ،محمد حسین آزاد ، حالی ، شبلی ،اکبر الہ آبادی ، علامہ اقبال، سرسید احمد خاں ، فراق گورکھپوری ، مولانا ابو الکلام آزاد اور علی سردار جعفری ، فیض احمد فیض، مخدوم محی الدین، مجاز ، جزبی ،شہریار ، احمد فراز ،امجد اسلام امجد، پروین شاکر پریم چند ،کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی عمصت ،منٹو ،قرأۃ العین حیدر، رام بابو سکسینہ ، عزیز احمد ، شمس الرحمن فاروقی، سید محمد عقیل رضوی، گوپی چند نارنگ ،گیان چند جین حافظ محمود شیرانی ،مسعود حسین خاں ، قاضی عبد الودود امتیاز علی عرشی ،مالک رام ،رام لعل جیسے تمام محبان اردو جیسی عظیم شخصیات کے لئے بہترین خراج عقیدت ہوگا۔
ڈاکٹر کہکشاں عرفان الہ آباد
Dr.kahkashanirfan1980@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں