مالیگاؤں کے رسوئی گیس صارفین ہوشیار , خبردار!
گیس سپلائی کرنے والے ملازمین کو اصل قمیت سے زائد رقم بالکل ادا نہ کریں.
مالیگاؤں (نامہ نگار) رسوئی گیس کے دام آسمان کی بلندیوں تک جا پہنچے ہیں. چند سال پہلے مودی حکومت نے خواتین کو دھویں اور لکڑیوں سے نجات دلانے کے لئے "اجولا یوجنا "نامی اسکیم متعارف کروائی تھی. اس میں کوئی شک نہیں کہ بے شمار خواتین نے اس اسکیم سے فیض حاصل کیا تھا.پہلے پہل گیس سیلنڈر حاصل کرنے والوں کو حکومت سبسیڈی مہیا کرتے ہوئے ان کے اکاؤنٹ میں کچھ رقم منقل کردیا کرتی تھی لیکن حکومت نے یہ دیکھا کہ ہندوستانی خواتین نے دھویں اور لکڑی کے چولہوں سے نجات حاصل کر لی ہے تو یک بیک اس نے سبسیڈی کی رقومات کی منتقلی پر قدغن لگا دی اور تو اور گیس سیلنڈروں پر روز بروز اضافی چارج کے نام پر قیمت میں بڑھوتری شروع کردی. پچھلی حکومت میں رسوئی گیس کا ایک سیلنڈر جو چار سو روپیوں میں دستیاب ہوا کرتا تھا آج وہی گیس کا سیلنڈر حکومت کے طے کردہ نرخ 812.50(اصل قیمت) میں مہیا کیا جارہا ہے لیکن ستم ظریفی یہ کہ گیس سیلنڈر سپلائی کرنے والے ملازمین صارفین سے گیس سیلنڈر کا 830 روپیہ وصول کررہے ہیں اور مرے پر سو درے کے مصداق صارفین بحالت مجبوری زائد نرخ کے ساتھ ساتھ مزید زائد رقم گیس سیلنڈر مہیا کرنے والے ملازمین کو دینے پر مجبور ہیں کیونکہ گیس نہ ہونے کی وجہ سے ان کے چولہے خاموش اور بجھے پڑے ہوتے ہیں. شکم کی آگ بجھانے کے لئے گیس سیلنڈر کے داموں میں لگی ہوئی آگ میں انھیں بہرحال جلنا ہی پڑتا ہے. رفیق احمد نامی ایک صارف جب سلینڈر کے حصول کے لئے ڈیلیوری مرکز پر پہنچا تو وہاں متعین ملازم نے اس سے فی سلینڈر 830 روپیہ وصول کیا اور جب صارف نے اسے اصل قیمت سے آگاہ کیا تو اس نے یکسر انکار کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں ہر حال میں 830 روپیہ ہی دینا ہوگا ورنہ گیس سلینڈر تمہیں مہیا نہیں کیا جائے گا. اس کے برعکس دیکھا جائے تو ان ملازمین کو گیس سپلائی مراکز سے خطیر تنخواہ حاصل ہوتی ہے لیکن زائد داموں کو کس زمرے میں رکھا جائے گا. اصل قمیت سے زائد جو روپیے صارفین سے وصول کئے جارہے ہیں وہ کس کی جیب میں جاتے ہیں گیس مراکز کے مالکین کو اس زائد رقم وصولی کی جانب توجہ دینا چاہئے ورنی آنے والے دنوں میں ان کے خلاف عوامی غم و غصہ کوئی ہنگامہ کھڑا کر سکتا ہے. شہری لیڈران کو شادی بیاہ اور دعوت ولیمہ سے پرے رہتے ہوئے مہنگائی کے اس دور پر فتن میں اس جانب بھی اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہئے.



کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں