src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> 19 سال بعد انصاف: آصف بشیر خان کی باعزت رہائی - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

منگل، 22 جولائی، 2025

19 سال بعد انصاف: آصف بشیر خان کی باعزت رہائی

  19 سال بعد انصاف: آصف بشیر خان کی باعزت رہائی




✍️ حافظ عبد الرحیم جلگاؤں





 



مقدمہ : 



آج کے جدید اور ترقی یافتہ ہندوستان میں جہاں آئین، انصاف، مساوات اور انسانی حقوق کی بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، وہیں کئی بے گناہ افراد برسوں تک سلاخوں کے پیچھے اپنی جوانی گنوا دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک افسوسناک مگر سبق آموز واقعہ جلگاؤں کے آصف بشیر خان کا ہے، جنہیں 2006 کے ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

*آصف بشیر کی فیملی نے کیا کہا*


رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اصف بشیر کی والدہ نے کہا کہ انصاف تو ملا مگر بہت دیر ہو گئی، 19 سال سے ہم ہمارے بیٹے کا انتظار کر رہے، ہیں ہمارے گھر میں روزگار کے لیے ہر طرح سے جو پریشانیاں ہیں اس کو ہم نے خود فیس کیا، سماج کے لوگوں نے ہمیں کافی مدد کی، بیوی نے  سلائی کام کر کے گزر بسر کا سہارا لیا، انس شاہ جو اصف بھائی کو اپنا بڑا بھائی مانتے تھے، انہوں نے گھر کے لوگوں کی خبر گیر رکھتے ہوئے ہر طرح سے اُن کو سپورٹ کیا، لیگل کاموں میں بھی ان کی کافی مدد کی، انیس شاہ نے کہا انصاف تو ملا مگر 19 سال برباد ہوگئے، 

پوری جوانی جیل میں:

آصف بشیر خان، جنہیں 2006 میں گرفتار کیا گیا تھا، اُس وقت ایک عام شہری تھے۔ ان پر دہشت گردی کے سنگین الزامات عائد کیے گئے اور مقدمہ عدالت میں پہنچا۔ لیکن ان 19 طویل برسوں میں کوئی ٹھوس ثبوت ان کے خلاف پیش نہ کیا جا سکا۔ آخرکار 2025 میں بمبئی ہائی کورٹ نے انہیں باعزت بری کر دیا۔


نظام انصاف پر سوالیہ نشان:

کیا ایک بے گناہ انسان کو 19 سال جیل میں رکھنا انصاف ہے؟ وہ قیمتی لمحے، والدین کی دعائیں، بچوں کا بچپن، خاندان کی خوشیاں — کیا یہ سب واپس آ سکتے ہیں؟ نہیں! یہ فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے تاکہ بے گناہ افراد کو فوری انصاف مل سکے۔


مسلمانوں کے ساتھ تعصب؟

ہندوستان میں کئی واقعات ایسے ہوئے جہاں صرف مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا۔ آصف بشیر خان،عبدالواحد خان، عبدالحمید، خالد مجاہد، شاہنواز، اور کئی دیگر نام ایک کربناک داستان بیان کرتے ہیں کہ کس طرح ایک مخصوص قوم کو نشانہ بنایا گیا۔


سوالات جو اُٹھنے چاہییں:


جن افسران نے جھوٹے ثبوتوں کے ذریعے آصف بشیر کو پھنسایا، اُن کے خلاف کیا کارروائی ہوگی؟


ریاست ان 19 سالوں کا کیا معاوضہ دے گی؟

کیا میڈیا اپنی گمراہ کن رپورٹنگ پر معافی مانگے گا؟

ہماری ذمہ داری:

بحیثیتِ مسلمان اور ایک باشعور شہری، ہمیں ایسے معاملات میں خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ ہمیں آواز بلند کرنی ہوگی کہ "انصاف میں تاخیر، انصاف سے انکار ہے۔"


اختتامیہ:

آصف بشیر خان کی رہائی صرف ایک فرد کی جیت نہیں، بلکہ ہر اس بے گناہ کی امید ہے جو جیل کی دیواروں میں انصاف کا منتظر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان مظلوموں کی حمایت میں مضبوط آواز بنیں اور ظالم نظام کے خلاف پرامن اور آئینی طریقوں سے احتجاج کرتے رہیں۔


19 سال کا معاوضہ کیا

جیل میں 19 سال بربادی کے بعد بھی، وہ مقام وہ مرتبہ نہیں مل پاتا، سماج ایک عیب نظروں سے دیکھتا ہے کوئی اچھی نوکری نہیں دے پاتا، گھر کے لوگوں کو طعنے دیے جاتے ہیں، انہیں دہشت گرد بتایا جاتا ہے، نہ جانے کیا کیا القابات سے ان لوگوں کو نوازا جاتا ہے، یہ بھی ا ایک بہت بڑی سزا ہے، جو جیل سے رہائی کے بعد بھی ملتی ہے، سرکار ایسے کاموں میں آگے آئے ایسے لوگوں کی مدد کرے اور انہیں خود نوکری فراہم کرے یہ ہمارا سرکار سے مطالبہ ہے،

پرویز خان، جنہوںنے خود 17 سال اس کیس میں برباد کیے، اُنہونے کہا کے سماج میں ہمیں وہ مقام ملنا چاہئے، جو عام لوگوں کو دیا جاتا ہے،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages