ادئے پور فائلز جیسی فلمیں فن اور تخلیق کے نام پر دانشورانہ غنڈہ گردی ہے
از۔ ایڈوکیٹ شاہد ندیم (قانونی مشیر جمعیۃ علماء ہند)
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کی جانب سے اُدئے پور فائلز نامی ہندی فلم کی نمائش روکنے کے لیئے دہلی ہائی کورٹ میں داخل کی گئی پٹیشن پرلگاتار دو روز تک سماعت عمل میں آئی جس کے بعد عدالت نے فلم کی ریلیز یعنی کے نمائش پر عبوری روک لگا دی، دہلی ہائی کورٹ کی اس مداخلت سے فلم کے پروڈیوسر اور ڈسٹری بیوٹرس کو کروڑوں کا نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔اس فلم کا ٹریلر منظر عام پر آنے کے بعد ہی سے انصاف پسند عوام بالخصوص مسلمانو ں میں بے چینی بڑھ گئی تھی۔ فلم کے ٹریلر میں جو دکھایا گیا تھا وہ محض ایک ٹریلر ہی تھا۔دہلی ہائی کورٹ کے حکم پر سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل اور ان کے معاون وکلاء نے دو گھنٹے کی اس فلم کو دیکھا اور فلم میں دکھائے گئے ایک ایک منظر کو نوٹ کیا اور پھر دوران بحث عدالت میں اسے پیش کیا۔ ایک جانب جہاں چیف جسٹس آف دہلی ہائی کورٹ جسٹس دیوندر کمار اپادھیائے اور جسٹس تشار راؤ نے فلم پروڈیوسر اور مرکزی سرکار کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل آف انڈیا کے دلائل سے اتفاق نہیں کیاوہیں دوسری جانب ایسی واہیات فلم اور اس کے ٹریلر کو سند جاری کرنے پر ان کی سرزنش بھی کی۔دوران سماعت فلم کے پروڈیوسر نے یہ قبول کیا کہ انہوں فلم کا ٹریلر سینسر بورڈ سے اجازت حاصل کیئے بغیر ہی ریلیز کردیا حالانکہ ٹریلر ریلیز ہونے کے بعد بورڈ کی جانب سے انہیں شوکاز نوٹس جاری کیا۔ عدالت نے اے ایس جی سے یہ بھی سوال کیاکہ انہوں نے شوکاز نوٹس پر کیا کارروائی کی؟ گذشتہ ایک دہائی سے ہندوستان میں اقلیتی طبقہ بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز فلمیں بنانے کا رجحان چل پڑا ہے، کشمیر فائلز کی کامیابی کے بعد کیرالا فائلز فلم بنی اور اب ادئے پور فائلز۔کیرالا فائلز فلم کی نمائش روکنے کے لیئے بھی جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ اور کیرالا ہائی کورٹ کا درووازہ کھٹکھٹایا تھا۔ کیرالا فائلز فلم ریلیز تو ہوئی تھی لیکن فلم کے ڈائرکٹر اور پروڈیوسر کو فلم سے متنازعہ مناظر ہٹانے پڑے تھے اور انہیں فلم کے شروعات میں ایک بڑا علان (ڈسکلیمر)دینا پڑا کہ یہ فلم کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔کیرالا فائلز فلم میں کیرالا سے ہجرت کرکے داعش نامی تنظیم میں شمولیت اختیار کرنے والی لڑکیوں کی تعداد جو ہزاروں میں بتائی گئی تھی اسے بھی کٹ کردیا گیا تھا۔ہمارے یہاں فلموں کو سینسر کرنے والے بورڈ میں اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو لیبرل خیالات رکھتے ہیں اور انہیں دوسرے مذاہب اور تاریخی واقعات کی جانکاری نہیں ہوتی ہے ورنہ ادئے پور فائلز نامی فلم کو سرٹیفکٹ جاری نہیں کیا جاتا۔ادئے پور فائلز میں دارالعلوم دیوبند اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی گئی، سینسر بورڈ کے ممبران کو اگر دارالعلوم دیوبند کی تاریخ اور مسلمانوں کے درمیان اس کی عظمت معلوم ہوتی تو وہ فلم کو اجازت نامہ دینے سے قبل سو بار سوچتے اور دارالعلو م دیوبند اور اس کے علماء کرام سے رابطہ کرتے لیکن انہوں نے فلم کو آزادی اظہار رائے کے نام پر ریلیز ہونے کی اجازت دے دی۔ دہلی ہائی کورٹ میں دوران بحث سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے قانونی پہلوؤں پر ایک تاریخی بحث کی کیونکہ ایسا شاز و نادر ہی ہوتا کہ عدالت کسی فلم کی نمائش کو نمائش سے محض چند گھنٹے قبل روک دے۔کپل سبل کی بحث کے بعد عدالت نے مولانا ارشد مدنی کو اس فلم کی نمائش کے خلاف مرکزی سرکار کے ادارے منسٹری آف انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ سے رجوع ہونے کا حکم دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ مولانا ارشد مدنی کی عرضداشت کی سماعت مکمل ہونے تک فلم کی ریلیز پر پابندی رہے گی۔دہلی ہائی کورٹ میں حتمی سماعت سے قبل دائے پور فائلز فلم کی خصوصی نمائش وکلاء کے لیئے کی گئی تھی۔ فلم دیکھنے کے بعد وکلاء کا کہنا تھاکہ یہ فلم ریلیز ہونے کے قابل ہی نہیں ہے، اس فلم میں ہندوستانی مسلمانوں کو نا صرف بدنام کیا گیا ہے بلکہ ان کے تعلقات پڑوسی ملک پاکستان سے بھی بتائے گئے ہیں۔فلم کے ٹریلر اور فلم سے 55/ متنازعہ سین کٹ کیئے جانے کے باوجود فلم سے نفرت کی بو آتی ہے، 55/ سین اور گیارہ منٹ کا مواد کٹ کرنے کے بعد بھی اگر فلم ریلیز ہوئی تو اس ملک میں تشدد بھڑکنے کے اندیشے کی بات عدالت کو بتائی گئی، یہ بات بھی عیاں ہے کہ ایسی فلمیں بنانے کا مقصد ایک مخصوص مذہبی طبقہ کو منفی اور متعصبانہ انداز میں پیش کرنا ہے جو اس طبقہ کے افراد کے وقار کے ساتھ جینے کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، مکمل فلم ہی ایک سماج کے خلاف بنائی گئی ہے۔اس پورے ایپی سوڈ کی سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم کا ٹریلر منظر عام پر آنے اور جمعیۃ علماء ہند اور جمعیۃ علماء مہاراشٹر کی جانب سے دہلی ہائیکورٹ اور بامبے ہائیکورٹ میں پٹیشن داخل کیئے جانے کے بعد سینسر بورڈ نے فلم پروڈیوسر کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا تھا لیکن اس پرکوئی تادیبی کارروائی نہیں کی حالانکہ فلم کے پروڈیوسر نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا تھا کہ اس نے بغیر سرٹیفکٹ کے فلم کا ٹریلر جاری کردیا۔ ہائی کورٹ میں سماعت سے قبل ہی فلم کے پروڈیوسر نے فلم کے ٹریلر سے چار متنازعہ سین ہٹا دئے اور اپنی غلطی کا عتراف بھی کرلیا۔ جمعیۃ علماء ہند اگر بروقت دہلی اور بامبے ہائی کورٹ سے رجوع نہیں ہوتی تو یہ فلم ابتک ریلیز ہوکر ہندوستان میں نفرت کا ماحول گرم کرچکی ہوتی۔ اگر فلم میں قابل اعتراض کچھ نہیں تھا تو پھرفلم کا نام گیان واپی فائلز سے ادئے پور فائلز اورنپور شرما سے نیوتن شرما کیوں کیا گیا؟دوران سماعت جب فلم کے پروڈیوسر کے وکیل کویہ لگنے لگا کہ عدالت ان کے دلائل سے مطمین نہیں لگ رہی اور فلم کی نمائش پر روک لگ سکتی ہے تو انہوں نے عدالت سے کہا کہ فلم 18/ ہزار سینما گھروں میں نمائش کے لیئے پہنچ چکی ہے اور فلم دیکھنے کے لیئے ایک لاکھ سے زائد ٹکٹ فروخت ہوچکے ہیں جس پر چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے کہ اس فلم کی نمائش کو روکا جائے۔چیف جسٹس کے کہنے کایہ مطلب تھا کہ ایسی نفرت آمیز فلم کو عوام کے درمیان جانے سے روکنا ضروری ہے۔دوران بحث مرکزی سرکارکے وکیل نے فلم کی نمائش کی حمایت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور کہا کہ یہ فلم کسی سماج کے خلاف نہیں ہے بلکہ کرائم کے خلاف ہے۔مرکزی سرکار کا دوہرا معیار بھی عدالت کے سامنے آگیا، ایک جانب جہاں وہ شوکاز نوٹس جاری کرتے ہیں وہی دوسری جانب انہیں فلم کی ریلیز پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ چیف جسٹس آف دہلی ہائی کورٹ نے اس بات کو اپنے فیصلے میں نوٹ کیا ہے۔ ایڈیشنل سالیسٹر جنرل آف انڈیا نے دہلی ہائی کورٹ کو پٹیشن پر سماعت کرنے سے روکنے یہ کہتے ہوئے کوشش کی کہ سپریم کورٹ نے اس فلم کی نمائش کی اجازت دے دی ہے حالانکہ بعد میں یہ واضح ہوا کہ سپریم کورٹ نے ایسی کوئی اجازت نہیں دی ہے بلکہ سپریم کورٹ نے اس فلم کی نمائش کے خلاف داخل پٹیشن پر جلد سماعت کرنے سے انکار کردیا۔سپریم کورٹ نے صحافی امریش دیوگن کے مقدمہ میں فری اسپیچ اور ہیٹ اسپیچ میں فرق واضح کیا ہے۔انڈین ایکسپریس میں فلم کے پروڈیوسرامیت جانی پر ایک آرٹیکل شائع ہوا ہے جس میں یہ بتایا گیاہے کہ فلم کے پروڈیوسر نے ماضی میں بھی ایسی نفرت آمیز فلمیں بنائی تھیں جس سے سماج میں انتشار پیدا ہوا تھا، سال 2012/ میں امیت جانی نے اس کی تنظیم کے ساتھ یو پی کی سابق وزیر اعلی مایاوتی کا مجسمہ توڑ دیا تھا۔کشمیر فائلز، کیرالا فائلز، ادئے پور فائلز جیسی فلمیں آرٹ نہیں ہوسکتی ہیں بلکہ یہ آرٹ اور تخلیق کے نام پر غنڈہ گردی ہے۔ ٹیلر کنہیا لال کے قتل پر بنائی گئی فلم ”اُدئے پور فائلز“ کے ٹریلر میں نبی کریم ﷺ اور ان کے ازواج مطہرات کے خلاف نازیبا کلمات اور تبصرے کئے گئے ہیں۔اس فلم میں دارالعلوم دیوبند کو انتہا پسندی کا محور بتایاگیا ہے اور دیوبند کے علماء کے خلاف بدترین زہر افشانی کی گئی ہے۔فلم میں گیان واپی مسجد جیسے زیر التواء مقدمہ کے تعلق سے بھی دکھایا گیا ہے۔فلم پروڈیوسر نے اظہار رائے کے حق کا نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے فلم میں قابل اعتراض مناظر کو دکھایا ہے،جس سے اسلام،مسلمان،اور دیوبند کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔فلم میں انتہائی گھٹیا اور نفرت آمیز مکالمے لکھے گئے ہیں،فلم کا ٹریلر دیکھ کرمسلم دشمنی ظاہر ہوتی ہے۔دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اب مرکزی سرکار کومولانا ارشدمدنی کی نظر ثانی کی پٹیشن پر سماعت کرنے کے بعد تفصیلی فیصلہ صادر کرنا ہوگا۔نظر ثانی کی عرضداشت پر اگر سینسر بورڈ فلم پروڈیوسر کے حق میں فیصلہ کرتی ہے تو یہ معاملہ ایک بار پھر ہائی کورٹ جائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسی درمیان فلم پروڈیوسر دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردے لیکن یہ تو طے ہوچکا ہے کہ فلم اب قانونی داؤ پیچ میں پھنس چکی ہے، ممکن ہے کہ اس قانونی داؤ پیچ کی وجہ سے مستقبل میں اس طرح کی نفرت آمیز فلم بنانے والے احتیاط کریں گے۔انصاف پسندعوام کو ایسی فلمیں یا ٹریلر منظر عام پر آتے ہی اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ہوسکتا ہر مرتبہ کامیابی نا ملے لیکن فلم سے جڑے لوگوں کو بہر حال پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔فائنانسرکا پیسہ داؤ پر لگ جاتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں