src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

ہفتہ، 19 جولائی، 2025

 نذر فاطمی کی شعری جہات: ایک مطالعہ 

مضمون نگار:محمد ضیاء العظیم قاسمی، 

معلم چک غلام الدین ہائی اسکول ،ویشالی 

موبائل نمبر : 7909098319 


شعر گوئی انسان کے پوشیدہ اور مخفی احساسات و جذبات، تصورات وتخیلات، سوچ وفکر، وہم وگمان کے اظہار کا ایک اہم اور حسین ذریعہ و وسیلہ ہے، شاعری کے ذریعہ شاعر اپنے دل کے مخفی  رازوں اور پوشیدہ باتوں کو ایک شعر کا سہارا لے کر جس خوبصورتی سے ظاہر کردیتا ہے وہ بعض اوقات کسی انسان کے لئے نثری تحریر کے ذریعہ کئی صفحات سیاہ کرکے بھی ممکن نہیں ہے ، شاعری کی اہم وصف یہ ہے کہ یہ بہت جلد انسان کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیتی ہے، اور قاری کو متأثر کرجاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اہل عرب نے شعر کو سحر اور جادو سے تشبیہ دی ہے ۔ایک شاعر  قدرت کی طرف سے بڑے فضل وکمال کا متحمل ہوتا ہے ۔

یہ حقیقت ہے کہ اردو  شیریں اور زندہ وجاوید زبان ہے ۔ دیگر زبانوں کی طرح یہ زبان بھی سلسلہ ارتقاء کی تمام کڑیوں سے گزری ہے اور تاریخی، سیاسی ، جغرافیائی اور علمی اثرات قبول کرکے دنیا کی سرمایہ دار زبانوں کی صف میں اپنی موجودگی درج کرانے میں کامیاب ہوئی ہے ۔ 

ہر زبان کا حسن اس زبان کی صنف شاعری ہوتی ہے، اسی طرح اردو شاعری بھی اردو زبان وادب کی ترجمانی و نمائندگی کرتی ہے، اس لئے کہ شاعری کے ذریعہ زبان وبیان کی جاذبیت، چاشنی، حسن، گہرائی و گیرائی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اور شاعری کسی بھی انسان کے لئے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کو حسن وجاذبیت کے ساتھ چند اصول وضوابط کی پابندیوں کی روشنی میں اظہار و خیال کا نام ہے۔ شاعری کے ذریعہ ہمیں بیک وقت کئی پہلوؤں کا علم و اندازہ ہوتا ہے، انسان  مناظر قدرت اور اپنی تفکرات میں گم رہتا ہے، ہر انسان کا ذاتی نظریہ، ذاتی تجربہ، اور ذاتی مشاہدہ ہوتا ہے۔اور وہ اسے خوبصورت پیرائے میں ڈھال کر اس کا اظہار کرتا ہے ۔شاعر اپنی شاعری کے ذریعہ معاشرے کو درست اور صحیح سمت کی جانب گامزن کرنے کی سعی کرتا ہے۔وہ سماج ومعاشرہ کے ان مسائل پر بھی توجہ دلاتا ہے جہاں تک ہر ایک کی رسائی ممکن نہیں ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ مثبت انداز اور تعمیری فکر رکھنے والے شعرا نے قوموں میں ہمیشہ شعور بیدار کیا۔

الطاف حسین حالی نے شاعری کی تعریف یوں کی ہے:۔ "خیالات و جذبات،  اقدار و روایات ، مدح و ذم، حالات  و واقعات  وغیرہ  کو غیر معمولی انداز میں موزوں کر کے  پیش کرنا  شاعری کہلاتا ہے۔" 

ایک شاعر جب شعر کہتا ہے تو وہ گویا سحرکاری کرتا ہے، شاعری کی زبان در اصل ساحری کی زبان ہوتی ہے جس سے ہر خاص وعام متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ شاعر کی زبان پورے کائنات کی زبان ہوتی ہے، کیوں کہ وہ  کائنات کے حادثات کو اپنے تخیلات میں سموئے رکھ کر گاہے بگاہے اس کا اظہار کرتا رہتا ہے،چونکہ شاعری کی بنیاد قوت متخیلہ پر ہے،  شاعر کا تخیل جتنا بلند ہوتا ہے شعر میں بھی اتنی ہی بلندی اور گہرائی وگیرائ نظر آتی ہے۔

جب کوئی شاعر اپنے وسیع وعریض تجربات اور مشاہدات کی بنا پر اپنی شاعری کو حقیقی رنگ و آہنگ دیتا ہے  تو اس میں مثبت سوچ ، عادلانہ فیصلے ، حکیمانہ فلسفے ، بصیرت وبصارت اور درد و رحم جیسی صفات پیدا ہو جاتی ہیں۔

 

میری اس تحریر کا مقصد کائنات علم و ادب میں اپنے نام اور شہرت کا ڈنکا بجانے والے شاعر  نیاز نذر فاطمی کی شاعری کا تجزیہ پیش کرنا ہے۔

جناب نذر فاطمی کا تعلق دبستان عظیم آباد سے ہے۔ ان کے کلام اور وصف کلام کو دیکھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ  ان کی شاعری قلب و جگر میں اس طرح اترتی ہے جیسے سبزے پر شبنم کا نزول ہوتا ہے. 

انہوں نے اپنی  شاعری میں محض سچے جذبات کی ترجمانی ہی نہیں بلکہ جمال فطرت کی روانی بھی پیش کی ہے، ایک فنکار اپنے ارد گرد کے حالات سے واقف اور باخبر رہتا ہے ۔حسن عسکری کے قول کے مطابق:۔ " ہر ادب پارہ اپنے اندر حقیقت کا کوئی نہ کوئی تصور رکھتا ہے۔" موصوف کا قلب و جگر محض تخیلاتی دنیا میں پرواز نہیں کرتا ہے، بلکہ حقیقی دنیا میں بھی گشت کرتا ہے ۔ان کی شاعری سے حمدیہ و نعتیہ کلام کا نمونہ پیش خدمت ہے ۔


زمیں کا مالک گگن کا مالک 

وہی خلا کا پون کا مالک 

اسی کی کلیاں ہیں پھول اس کے 

وہی ہے سارے چمن کا مالک۔

یقیناً ان کے حمدیہ کلام کو دیکھ کر اس بات یقین کامل ہوتا ہے کہ دعا والتجا میں بندے کو آداب بندگی کا دائرہ ملحوظ رکھتے ہوئے کس طرح رب کے حضور درخواست پیش کرنی چاہیے ، چونکہ ایک بندہ جب رب کے حضور اپنے معروضات پیش کرتا ہے تو بہت عاجزی وانکساری اختیار کرتا ہے، پھر رب العزت کی رحمتیں اس بندے کی جانب متوجہ ہوتی ہیں ۔ 

اسی طرح نعتیہ کلام کا نمونہ دیکھیں ۔


چاہتے ہو کہ کہیں نور برستا دیکھو 

جاکے اک بار ذرا شہر مدینہ دیکھو 

آپ پر ختم نبوت کا ہے اعلان خدا 

اے جہاں والو یہ سرکار کا رتبہ دیکھو ۔

غزل سے چند اشعار۔

دور سے کیا ادا  دکھاتے ہیں

میں ہی آؤں کہ آپ  آتے ہیں، 

آنے جانے کے  بیج  ہے  وقفہ

لوگ اسے زندگی  بتاتے  ہیں

 

اشعار 


مولیٰ ترا کرم ہے جو اتنی خوشی تو ہے

 پر  لطف  زندگی نہ سہی زندگی تو ہے، 

 سب کچھ تو میرے پاس ہے پھر بھی نہ جانے کیوں

 دل کو سکوں نہیں ہے ،کہیں کچھ کمی تو ہے، 


اشعار 


کہہ کر وہ شب بخیر دعا دے کے سو گیا

بے چین آرزو کو یہ کیا دے کے سو گیا، 

ڈالا ہے آج کیسے پس و پیش میں مجھے

تصویر اپنی جان ادا دے کے سو گیا، 

تنگ آ کے میری طفل مزاجی سے آخرش

خواب آوری کی مجھ کو دوا دے کے سو گیا،




ان کی شاعری کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ جدید غزل کے نمائندہ شاعر ہیں، ان کے کلام میں داخلی و خارجی کیفیات کی رنگارنگی بھی ہے اور اعلٰی خیالات و جذبات کی ترجمانی بھی۔ نذر فاطمی کی شاعری میں ایک اہم وصف یہ بھی ہے کہ اس میں ان کیفیات کا بھی اظہار نظر آتا ہے جو خود شاعری کے لئے اہم حیثیت رکھتا ہے۔

  ایک غزل سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں. 


لبریز   ہو  پیمانۂ  افکار   غزل    میں

شاعر ہے جو برتے یہی معیار غزل میں، 

الفاظ پروتے  ہیں کسی بحر میں ایسے

اک جزم بھی ہوتا نہیں بیکار غزل میں، 

شعروں کو  افاعیل  کی  زنجیر ہے لازم

منزل   ہے  یہی  منزل  دشوار  غزل میں، 

سنتے ہی جسے جاگ اٹھے دید کی خواہش

مضمر  ہے کچھ ایسا ہی چمتکار غزل میں، 

ہوتی ہے جہاں اس میں صداے غم جاناں

 پوشیدہ ہے پازیب کی جھنکار غزل میں، 

کچھ ایسے بھی اشعار کہو نذر کہ پڑھ کر

  ہو تا  رہے  محبوب کا  دیدار غزل میں۔


یقیناً  نذر فاطمی کا نام ادبی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں ہے ۔ ادبی حلقوں میں ان کی حیثیت مسلم ہے، ان کی شاعری اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہے کہ اردو ادب میں قدیم روایت کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے لئے ایک نئی جہت کے انتخاب  کا سلسلہ ہنوز جاری وساری ہے۔ وہ ایسے تخلیق کار ہیں جو اپنی قوت وفکر ، دانائی وعقلمندی کے ساتھ خوب صورت اور لطیف جذبات واحساسات کو شعری بندشوں میں برت رہے ہیں، ان کی شاعری اپنے عہد سے جڑی ہوئی ہے او  اس کے سنجیدہ مطالعے  سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے فن کو برتنے اور خیال کو لفظوں میں سمونے کا ہنر بہ خوبی جانتے ہیں ۔


 ایک غزل سے چند اشعار 


کیا  بتاؤں  کہ  میرے کیا  تم  ہو

   میری  چاہت  کی  انتہا   تم   ہو

   آرزو   تم    ہو    التجا    تم    ہو

   ایک   بس  ایک   مدعا    تم   ہو

   خود کو منصوب جانتا ہوں میں

   جس جگہ  پر  لکھا  ہوا  'تم'  ہو

   شام  کی   رات  کی  سویرے  کی 

   دھند   تم   تاب   تم  ضیا  تم  ہو

   آئینہ   دیکھنے   کی  حاجت   کیا

   جانتا  ہوں  میں   مہ لقا   تم   ہو

   ایک   ذات  خدا   ہے  اسکے   بعد

   میرا    اک    اور    آسرا    تم   ہو

   نذر  جانے   بھی  دو   تفنن  میں

   کہ  دیا  اس  نے   بے  وفا  تم  ہو۔


شاعر کی فنی پختگی، تازہ کاری اور شگفتگی کا مظہر اور جوہر یہ ہے کہ ندرت خیال، جذبات اور احساسات کی شدت، دھیماپن اور سلاست وروانی اس کے کلام میں موجود ہو، کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ شاعری صرف داخلی محسوسات کی نمائندگی نہیں کر رہی بلکہ اسے زندگی کا مکمل ادراک حاصل ہے۔ وہ شعور کی تمام حدوں اور دائروں سے خیالی پیکر تراش کر  اپنے اندر کا دکھ اس انداز میں بیان کرتا ہے کہ شکوے شکایات کے بجائے  حقیقت کے  پہلو کا غلبہ محسوس ہوتا ہے ۔ وہ اپنے عہد کے مسائل اور معاشرے کی ترجمانی کرنے سے لاشعوری طور پر تو دور رہتا ہے، لیکن بعض اوقات وہ دو مصرعوں میں پوری کائنات کو سمیٹ کر رکھ دیتا ہے، وہ اپنی بات کو سادگی سے بیان کرنے کا عادی ہوتا ہے۔ زبان کی سلاست، روانی اور مختصر بحروں کے ساتھ وہ غزل کو ایک نیا آہنگ عطا کرتا ہے۔ اس امید پر کہ ابھی اسے بہت سا سفر طے کرنا ہے، اور یقیناً وہ اپنے ہم عصروں کے لیے شعر و ادب کی دنیا میں ایک معتبر حوالہ بنے گا۔ اس کا سنجیدہ اندازِ  بیاں اور بلند خیالی اسے موجودہ دور کے معتبر ناموں کے درمیان منفرد اور نمایاں مقام عطا کرتا ہے۔ اس کے کلام کی ایک اور خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ زندگی اور محبت میں آنے والے اتار چڑھاؤ، اذیت اور کرب کو محسوس تو بہت شدت سے کرتا ہے، مگر اس کا اظہار اس انداز سے کرتا ہے کہ اس میں چبھن اور تکلیف کا احساس بہت کم نظر آتا ہے۔ سوزِ دروں اور باطنی کشمکش کا اظہار کرتے ہوئے اس نے جو انفرادیت قائم کی ہے وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اسے اپنی ذات پر مکمل اعتماد ہے۔ وہ روایت سے انحراف نہیں کرتا  لیکن اس کے تخیل نے مانوس لہجے میں جو شاعری کی ہے اس کا ذائقہ نیا ضرور محسوس ہوتا ہے، یا یوں کہہ لیں کہ اس نے روایت اور جدّت کو اپنے منفرد اسلوب کے ساتھ اشعار میں سمویا ہے۔ نذر فاطمی فطری طور پر شاعر ہیں، اور بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں ۔ غزل ان کے لئے  وسیلۂ اظہار بن چکا ہے ۔ ان کے شعری ذوق نے انہیں باکمال بنا دیا ہے ۔ وہ عشقیہ اور مزاحیہ مضامین کو دل چسپ انداز میں پیش کرنے کا ہنر رکھتے ہیں ۔

ان کی شاعری کئ حصوں میں تقسیم کی جا سکتی ہے، جس میں حقیقی، عاشقی، اور مزاح کا رنگ وآہنگ بھی دیکھنے کو ملتا ہے، ان کی غزل سے مزید چند اشعار


خوشیاں بھی ہیں غم بھی ہیں

تم بھی ہو اور ہم بھی ہیں

زخم ہزاروں دنیا میں

تھوڑے سے مرہم بھی ہیں

باغوں میں پھولوں کے نذر

کانٹوں کے جوکھم بھی ہیں۔


اشعار 


دال اپنی کبھی گلی ہی نہیں

ان کے آگے مری چلی ہی نہیں

پھول کیسے کھلیں گے گلشن میں

شاخ گل پر کوئی کلی ہی نہیں ۔

یہ انداز بھی دیکھئے 


ہنس ہنس کے عدو سے مرے تم بات کرو ہو، 

مجروح بھلا کیوں مرے جذبات کرو ہو، 

کیوں شرم ذرا آئی نہ اپنوں کو جھڑکتے

غیروں پہ تو دن رات عنایات کرو ہو ۔


سونی پڑی ہوئی ہے ہر اک رہگزر ابھی

شاید کہ میکدوں کے مقفل ہیں در ابھی، 

چلنا تو زندگی کی علامت ضرور ہے

چل دوں گا کر رہا ہوں میں سیدھی کمر ابھی، 


گردشوں سے یوں ابھر جانے کو جی چاہتا ہے

شام سے پہلے ہی گھر جانے کو جی چاہتا ہے، 

تم کو رکھنا ہے رکھو ترک تعلق کا بھرم

میرا وعدے سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے، 

ملک و مذہب کے قوانین تو سر آنکھوں پر

عشق میں حد سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے، 

فرش دنیا پہ میں مدت سے جیا ہوں اب تو

چاند تاروں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے۔


کیا کوئی جہد کرے عمر کی دولت مانگے

زندگی مجھ سے مری سانسوں کی قیمت مانگے، 

ذہن مشغول ہے دن رات غم دوراں میں

عشق جلوؤں کا پرستار ہے خلوت مانگے ۔


نذر فاطمی کی شاعری میں درس وفا بھی ہے، عشق وعاشقی کا رنگ و آہنگ بھی، جنون وبیقراری بھی ہے، سکون وقرار بھی، سوز وگداز بھی ہے اور زندگی کے مختلف رنگ بھی۔نذر فاطمی کے کلام کی نمایاں خوبی سادگی و سلاست اور روانی ہے ۔ آپ نے اپنی شاعری میں عام فہم زبان‘ آسان اور سہل الفاظ استعمال کئے ہیں۔ آپ تکلف تصنع اور بناوٹ سے بچتے ہیں اور نہایت ہی سادگی کے ساتھ الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، مگر انداز  مؤثر اور دلنشین ہوتا ہے ۔

صداقت کا پہلو ان کی شاعری میں ہر جگہ  نظر آتا ہے۔ وہ جذبات وخیالات کو حقیقت و صداقت کی زبان میں ادا کرتے ہیں۔الطاف حسین حالی شاعری میں جھوٹ اور مبالغہ آرائی کے خلاف ہیں۔ اور حقیقت نگاری کو اس کی بنیادی صفت قرار دیتے ہیں۔ معاملات عشق و محبت کے ہوں یا قومی و ملی افکار و خیالات کے، نذر فاطمی صداقت کا دامن تھامے رہتے ہیں۔خلاصہ یہ کہ ان کی شاعری حسن بیان‘ بلند تخیلات ‘ حقیقت نگاری‘ سوزو گداز اور سادگی و سلاست پر مبنی ہے۔انہوں نے شاعری کوقوم وملت کی اصلاح کا بڑا اور اہم ذریعہ بتایا ۔ وہ اردو زبان وادب کے  بڑے خیر خواہ، اور شعری دنیا میں اپنے اشعار کے ذریعے ہمیشہ زندہ رہنے والے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages