دعوت اسلامی ہند کا ایک عظیم کارنامہ
معذورین گونگے بہرے نابینا افراد کے لیے مدرسہ المدینہ کا بالاسندور میں قیام ۔
جلگاؤں۔ (عقیل خان بیاولی) اسلام ایک ایسا عالمی اور آفاقی مذہب ہے جو انسانیت کے ہر طبقے کو عزت، مقام اور سہارا فراہم کرتا ہے*۔ معذورین افراد بھی *اسلامی معاشرے* کا اتنا ہی اہم حصہ ہیں جتنا کہ صحت مند افراد۔ شریعتِ مطہرہ نے انہیں خصوصی رعایتیں دی ہیں اور معاشرتی سطح پر ان کے حقوق کے تحفظ کی تعلیم دی ہے۔ اسی جذبۂ رحمت و خیرخواہی کے تحت *دعوتِ اسلامی ہند* نے گونگے، بہرے اور نابینا اسلامی بھائیوں کے لیے ایک عظیم الشان مدرسے کا قیام فرما کر ایک روشن مثال قائم کی۔
یوں اگر ہم دیکھیں تو قرآنی آیات اور احادیث طیبات میں بھی معذورین کے حوالے سے *فرامینِ رب العزت و فرامین رسول مقبولﷺ* جا بجا موجود ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے *لَیْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِیْضِ حَرَجٌ* ۔۔۔ ترجمہ کنزالایمان ۔۔۔ نہ اندھے پر تنگی اور نہ لنگڑے پر مضائقہ اور نہ بیمار پر روک۔۔۔
*قرآن کریم* میں اور بھی دیگر مقامات پر اللّٰہ تعالیٰ نے معذور افراد کے حوالے سے اس پر رعایت و تخفیف کا ذکر فرمایا ہے ۔۔۔
احادیث طیبات میں *نبی کریم ﷺ* کا فرمان عالیشان ہے کہ ۔۔۔ *قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "يُدْخِلُ اللَّهُ أَهْلَ الْعَاهَاتِ الْجَنَّةَ قَبْلَ الْأَصِحَّاءِ بِنِصْفِ يَوْمٍ."*
(مسند احمد بن حنبل: 8066)
(ترجمہ) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اللہ تعالیٰ معذور افراد کو صحت مندوں کے مقابلے میں آدھے دن پہلے جنت میں داخل کرے گا۔"
سبحان اللّٰہ کیا خوب فضیلت بیان فرمائی آقا کریم ﷺ نے۔ ( البتہ آدھا دن قیامت کے دن کے حساب سے ہزاروں سال کے برابر کا ہوگا)
ہمارے معاشرے میں عام طور پر *معذور حضرات* کو ایک الگ نظر سے دیکھا جاتا ہے جو کہ بہت زیادہ افسوس ناک امر ہے، ہمارے *مذہب نے معذور* افراد کو ایک خاص مقام دیا ہے اور ان کے لیے بعض احکام میں رعایت و تخفیف بھی رکھی ہے، اور *نبی کریم ﷺ* کی زبان فیض ترجمان سے فضیلت بھی پائی ہے (جو صاحب ایمان ہیں) ۔۔۔
*نابینا حضرات کے لیے مدرسۃ المدینہ کے قیام کی ضرورت کیوں؟*
ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا *نابینا* اور اس طرح کے دیگر *معذور افراد* بھی پڑھ لکھ سکتے ہیں؟ تو جوابا عرض ہے کہ جی ہاں کیوں نہیں! *ہمارے اسلاف* کی یہ تاریخ رہی ہے کہ *نابینا اور معذور حضرات* نے علوم و فنون میں وہ مہارت پائی کہ تاریخ میں ان کی بہت کم مثال ملتی ہے، مثلاً *حضرت قتادہ رحمۃ اللّٰہ علیہ جو جلیل القدر تابعی بزرگ ہیں جو مفسر قرآن اور عظیم محدث اور علم الانساب اور تاریخ عرب، ساتھ ہی علم ادب و لغت میں امام ہیں اور ان کی جلالت شان کمال مسلم ہے، حضرت سعید بن مسیب کے شاگرد ہیں*، مگر آپ *نابینا* تھے باوجود اس کے اتنے بڑے *امام* بنے کہ *سیکروں محدثین* نے ان سے فیض پایا۔۔۔ اسی طرح سے اس ضمن میں 11 علماء و فقہاء و محدثین کے نام ذکر کیے دیتا ہوں جو اپنے اساتذہ سے *نابینا* ہونے کے باوجود پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھا اور پڑھ کر اتنے بڑے امام بنے کہ زمانے کے بڑے بڑے علماء فقہاء و محدثین نے ان سے استفادہ کیا اور شرف تلمذ حاصل کی۔۔۔
*1۔ ابو معاذ، شاعر مشہور بشار ۔۔۔*
*2۔ فقیہ شافعی زبیر مصری ۔۔۔*
*3۔ تلمیذ رشید امام اعمش ابو معاویہ*
*4۔ ابو بشر سہل بن بکار امام شعبہ کے شاگرد ہیں*
*5۔ ابو ہشام مغیرہ ابنِ مقسم، امام مجاہد اور ابراہیم نخعی کے شاگرد ہیں ۔۔۔*
*6۔ حماد ابن زید یہ امام ابن المدینی کے شاگرد ہیں،*
*7۔ امام حافظ علامہ حفص ابو عمر، امام حماد بن سلمہ کے شاگرد ہیں، امام ابو زرعہ جیسی شخصیات ان کے شاگردوں میں ہیں،*
*8۔ ابو جعفر النحوی فن نحو کے امام تسلیم کیے جاتے ہیں، محدث ابو معاویہ کی شاگردی کا شرف پایا ۔۔۔*
*9۔ احمد ابو العلا معری۔ ابن سعد النحوی کے شاگرد رشید ہیں، ان کی کتاب آج اہل ادب کے یہاں ذوق سے پڑھی جاتی ہے ۔۔۔*
*10۔ امام منصور ابوالحسن مصری فقیہ شافعی، اپنے زمانے کے تقریباً سارے علوم پر میں مہارت رکھتے تھے، امام شافعی کے شاگردوں میں شمار کیے جاتے ہیں ۔۔۔*
*11۔ امام ابو محمد الشاطبی فن قراءت کے مشہور امام علاوہ ساتھ ہی تفسیر و حدیث کے زبردست عالم، فن نحو و لغت میں بے نظیر تھے، امام ابن النعمہ و ابن سعادہ سے تحصیل علم کیا ۔۔۔*
مذکورہ *علماء اسلام* نے اپنی *معذوری* کے باوجود خدمت دین کی خاطر درسگاہ کی گتھیاں سلجھائیں اور اپنی *اپنی درس گاہ سے ہزاروں علماء و محدثین پیدا کیے*، ذکر کردہ سارے نام وہ ہیں جو نابینا تھے آنکھوں کی ظاہری نگاہ سے دیکھ نہیں سکتے تھے مگر دیکھنے والوں کے حوصلے انہیں دیکھ کر رشک کرتے ۔۔۔ مگر آج کے اس پر آشوب دور میں گونگے، بہرے اور نابینا افراد اکثر معاشرتی زندگی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ عام دینی اداروں میں ان کے لیے مخصوص سہولیات نہ ہونے کے باعث وہ علمِ دین سے محروم رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں ایک ایسا تعلیمی ادارہ قائم کرنا جہاں یہ *معذور اسلامی بھائی* نہ صرف دینی علوم حاصل کر سکیں بلکہ *روحانی* طور پر بھی ترقی کریں، وقت کی ایک اہم ترین ضرورت تھی جس کو پورا کرنے کا عزم *دعوت اسلامی ہند* نے کیا ہے، اور اس میں *اللّٰہ رب العزت نے غیر معمولی کامیابی عطا فرمائی*۔ جوکہ یقیناً لائقِ تحسین آفرین و ستائش ہے ۔۔۔ ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ سب *فیضان نظر ہے اس مرد درویش آہن صفت شخصیت کا جس کو آج دنیا شیخ طریقت امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی حضرت مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ* کے نام سے یاد کرتی ہے ۔۔۔
*اللّٰہ تعالیٰ ہمارے مرشد کریم امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی آنکھوں کو ان کاموں سے ٹھنڈی فرمائے*
*مدرسۃ المدینہ کا قیام اور افتتاحی تقریب*
اس تقریب سعید کے بابرکت موقع پر *دعوتِ اسلامی ہند کے نگران رکنِ شوریٰ حضرت قبلہ حاجی سید عارف علی عطاری شاہ صاحب مدظلہ العالی* بنفسِ نفیس تشریف لائے اور اپنے ولولہ انگیز خطاب سے *شرکاء اجتماع* کے قلوب و اذہان کو محظوظ فرمایا اور معذور افراد کو سہارا دینے اور ان کا مونس و غمخوار بننے کے حوالے سے مدنی پھولوں سے نوازا، ساتھ ہی ان کو احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچانا اور ان کے لیے شفقت و محبت کے بازوؤں کو پھیلانے پر نتیجہ خیز خطاب فرمایا ۔۔۔
تقریب سعید میں *گجرات کے شہر بالا سندور* کے جید *علماء کرام، مشائخ عظام* اور عوام الناس کی کثیر تعداد نے شرکت فرمائی۔
*علماء کرام* نے اپنے تاثرات میں اس *مدرسۃ المدینہ* کے قیام کو ایک دینی اور انسانی فریضہ قرار دیا اور *دعوتِ اسلامی ہند* کی اس عظیم خدمت کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کیا۔
*قائم کردہ مدرسۃ المدینہ کی خصوصیات*
یہ *مدرسۃ المدینہ* اپنی نوعیت کا ایک منفرد ادارہ ہے جس میں *معذور اسلامی بھائیوں* کی مخصوص ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے تعلیمی انتظامات کیے گئے ہیں:
*گونگے بہرے افراد کے لیے اشاروں کی زبان (Sign Language) میں تعلیم دینے کا خصوصی انتظام*
*نابینا افراد کے لیے بریل (Braille) زبان میں قرآنِ مجید اور دینی نصاب کی تیاری*
*آڈیو کتابیں اور ریکارڈ شدہ دینی مواد کی فراہمی*
*ماہر اساتذہ کی نگرانی میں ان اسلامی بھائیوں کی تربیت*
*نماز، طہارت، اخلاقیات اور دینی احکام کی عملی تربیت*
*تربیتی ورکشاپس اور روحانی اجتماعات کا انعقاد*
*دعوتِ اسلامی ہند کی انقلابی سو*
دعوتِ اسلامی ہند کا یہ کارنامہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تحریک نہ صرف عام مسلمانوں کی اصلاح و تربیت کے لیے کوشاں ہے بلکہ خصوصی افراد کو بھی دین کی روشنی سے منور کرنے کے لیے سرگرم ہے۔
یہ مدرسۃ المدینہ اس بات کی عملی تصویر ہے کہ دینِ اسلام سب کو ساتھ لے کر چلنے کا درس دیتا ہے جس پر یہ تحریک عمل پیرا ہے۔ *دعوتِ اسلامی ہند* نے اس عملی اقدام کے ذریعے *معذور بھائیوں* کے دل میں یہ احساس پیدا کیا ہے کہ وہ بھی امتِ مسلمہ کا قیمتی سرمایہ ہیں اور ان کا دینی و روحانی ارتقاء بھی اہم ہے...
*سیدی رکنِ شوریٰ کا پیغام*
*نگران ہند مشاورت رکنِ شوریٰ سید عارف علی عطاری شاہ صاحب مدظلہ العالی* نے افتتاحی تقریب میں اپنے خطاب میں فرمایاکہ! *دعوتِ اسلامی ہند* کا مشن ہر خاص و عام تک علمِ دین پہنچانا ہے۔ ہم *معذور اسلامی بھائیوں* کو بھی وہی عزت اور محبت دینا چاہتے ہیں جو ایک عام فرد کو حاصل ہے۔ یہ *مدرسۃ المدینہ ہماری تحریک کی سوچ تطہیر کا عملی مظہر ہے* ہم اپنے *وطن عزیز ملک ہندوستان* کی ترقی اور اس کی خوبصورتی میں ہر ممکن کوشش کے لیے تیار ہیں اور ہر جہت پر جاکر کام کرنے جذبہ رکھتے ہیں جس کی ہمارے *دین* نے اجازت دی ہے۔۔۔
ہم دعا گو ہیں کہ یہ *مدرسۃ المدینہ معذور اسلامی بھائیوں* کے لیے دینی و دنیاوی کامیابی کا ذریعہ بنے۔۔۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے معززین نے دعوت اسلامی ہند کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کچھ یوں اظہار خیال کیا کہ "یہ مدرسۃ المدینہ ایک صدیوں یاد رہنے والا کارنامہ ہے۔"
ہم اس اہم تاریخی غیر معمولی کامیابی پر نگران ہند مشاورت و اراکینِ ہند مشاورت اور اسٹیٹ نگران اور بالا سنور کے جملہ ذمہ داران کو صد کروڑ مبارک باد پیش کرتے ہیں
تیرے اس باغ کی بہاروں کو
نہ کسی کی لگے نظر مرشد
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں