src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> شہر میں خود کشی کے بڑھتے واقعات اور ہماری ذمہ داریاں - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

پیر، 17 مارچ، 2025

شہر میں خود کشی کے بڑھتے واقعات اور ہماری ذمہ داریاں

 شہر میں خود کشی کے بڑھتے واقعات اور ہماری ذمہ داریاں 


از: مفتی محمد عامر یاسین ملی 







رمضان المبارک کے آغاز سے اب تک شہر مالیگاؤں میں خود کشی کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں ،خودکشی کے ان بڑھتے ہوئے واقعات پر محض افسوس کے بجائے ان کے اسباب و وجوہات پر غور کرنے اور ان کے ازالے کی کوشش ضروری ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ خود کشی کرنے والے وہ مسلمان ہیں جوجانتے ہیں کہ خود کشی کبیرہ گناہ اور حرام موت ہے ،حدیث شریف میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر خودکشی کی، وہ جہنم کی آگ میں بھی اسی طرح ہمیشہ گرتا رہے گا، اور جس شخص نے لوہے کی ہتھیار سے خود کو ہلاک کیا، وہ دوزخ میں بھی ہمیشہ اپنے پیٹ میں ہتھیار گھونپتا رہے گا۔ (بخاری) ایک اور روایت میں ہے کہ گلا گھونٹ کر خودکشی کرنے والاجہنم میں ہمیشہ گلا گھونٹتا رہے گا اور اپنے آپ کو نیزہ مار کر ہلاک کرنے والادوزخ میں بھی ہمیشہ اپنے آپ کو نیزہ مارتا رہے گا۔ ( بخاری )

عام طریقے پر خود کشی کرنے والے کسی نہ کسی بڑی تکلیف ،پریشانی اور آزمائش میں مبتلا رہتے ہیں ،اور جب وہ اپنی پریشانیوں کا مقابلہ کرتے کرتے تھک جاتے ہیں تو یہ گمان کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں کہ شاید اس طرح وہ اپنی تکالیف اور پریشانیوں سے نجات حاصل کرلیں گے ،حالانکہ یہ ان کی غلط فہمی ہوتی ہے ،اس لیے کہ مندرجہ بالا حدیث شریف کے مطابق خود کشی کرنے والااپنے آپ کو بہت بڑے عذاب کا مستحق بنالیتا ہے گویا موت کے بعد بھی اسے راحت نہیں ملتی ،اور اس طرح وہ دنیا سے تو محروم ہوتا ہی ہے ،آخرت میں اچھے انجام سے بھی محروم ہوجاتا ہے بقول شاعر ؎

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے 

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

 

ہر مسلمان (مرد و عورت) کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کا مالک نہیں ہے ،زندگی تو اللہ کی عطا کردہ ایک نعمت ہے ،جس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے ۔دوسری بات یہ کہ دنیا کی زندگی مشکلات ،پریشانیوں اور مختلف طرح کی آزمائشوں کا مجموعہ ہے ،اور کوئی بھی تکلیف ہمیشہ باقی نہیں رہتی، صحیح تدبیر اور دعا کے نتیجے میں تکلیفیں دور ہوجایا کرتی ہیں ۔لہذا بندہ مومن کو مایوس ہونے کے بجائے ہمیشہ صبر وبرداشت ،محنت وتدبیر اور دعا کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور پوری ہمت اور حوصلے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے ،یہی بندہ مومن کی شان ہے ،بقول حضرت کلیم عاجز

سلگنا اور شئے ہے جل کے مرجانے سے کیا ہوگا 

ہوا ہے کام جو ہم سے وہ پروانوں سے کیا ہوگا


جو لوگ مختلف طرح کی پریشانیوں اور بیماریوں میں مبتلا ہیں،ان سے عرض ہے کہ وہ اپنے مسائل کو لے کر اکیلے اکیلے گھٹ گھٹ کر جینے کے بجائے اپنے والدین ،سرپرست حضرات ،شریک حیات ،یا مخلص رشتے داروں اور دوستوں اسی طرح ائمہ مساجد اور علماء کرام سے ملاقات کرکے مشورہ اور مددحاصل کریں اور سب سے بڑھ کر اپنے پروردگار سے لو لگائیں کہ وہی ہر مشکل اور تکلیف کو دور کرنے والاہے۔

بخشا ہے جس نے درد ہمیں ،درد کی دوا

اے دوست!مانگتے ہیں اسی چارہ گر سے ہم


اہلیان شہر سے بھی گزارش ہے کہ اپنے متعلقین دوستوں اور پڑوسیوں کے حالات سے باخبر رہیں، اور جو لوگ کسی بھی طرح کے مسائل میں مبتلا نظر آئیں ان کی مالی اور اخلاقی مدد کریں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے پڑوسیوں اور رشتہ داروں بہت سے غیرت مند افراد غربت اور قرض سے پریشان رہتے ہیں لیکن وہ اپنی عزت نفس اور غیرت کی وجہ سے نہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے اور نہ کسی پر اپنے حالات ظاہر کرتے ہیں، ان کا حال یہ ہوتا ہے 

مری روح کی حقیقت میرے آنسوؤں سے پوچھو 

 مرا ظاہری تبسم مرا ترجماں نہیں ہے

 ہم لوگ بھی ان کے اندرونی حالات سے بے خبر رہتے ہیں، اس لئے ان کا تعاون نہیں کرتے ۔پھر ایک وقت اتا ہے کہ پریشان حال افراد کہیں سے بھی کسی طرح کا تعاون نہ ملنے پر انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ ہم لوگ بس پیشہ ور بھکاریوں کی ہی مدد کرتے رہتے ہیں جو مستحق بھی نہیں ہوتے اور روزانہ صبح سے شام تک سینکڑوں ہزاروں روپیہ اکٹھا کر لیتے ہیں۔ رمضان المبارک کا مہینہ جاری ہے، بہت سارے افراد اسی مہینے میں زکوۃ ادا کرتے ہیں، زکوۃ کا بہترین مصرف غریب اور مستحق رشتہ دار ہیں، ان کو زکوۃ دینے میں دگنا اجر ہے، زکوۃ کی ادائیگی کا بھی اور صلہ رحمی کا بھی! لھذا رشتے داروں کا بھرپور تعاون کریں ۔ اسی طرح اگر کسی گھرانے کے افراد یا ازدواجی جوڑے اختلاف و انتشار کا شکار ہوں تو بھی سرپرست حضرات اور محلے کے سرکردہ لوگوں کو چاہیے کہ دلچسپی لے کر ان کے باہمی اختلافات اور ناچاقیوں کو فوری طور پر دور کرنے کی کوشش کریں، رمضان میں بھی اصلاح اور مصالحت کا اہم کام جاری رہنا چاہیے ، عموما اسے عید کے بعد تک مؤخر کردیا جاتا ہے ۔ اس لیے کہ شہر میں خود کشی کا ایک بڑا سبب خاندانی انتشار اور گھریلو ناچاقی کی شکل میں بھی سامنے آیا ہے۔ 

علمائے کرام اور ائمہ مساجد سے بھی درخواست ہے کہ وہ اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے عام مسلمانوں کو خودکشی کے دنیوی و اخروی نقصانات سے اگاہ کریں، ساتھ ہی ساتھ خودکشی کے اسباب و وجوہات اور ان کے تدارک پر بھی روشنی ڈالیں۔

امید ہے کہ ان گذارشات پر توجہ دی جائے گی۔ واللہ الموفق وھو المستعان 

*-*-*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages