ایک باکمال ماہر کاتب چل بسے
پرسہ
از ! (مفتی) شفیع احمد قاسمی جامعہ ابن عباس احمد آباد
آج صبح بوقت سحر ایک انتہائی غم انگیز اور افسوس ناک خبر موصول ہوئی کہ جامعہ ابن عباس احمد آباد کے ایک مؤقر استاد جناب کاتب عبد السمیع صاحب قریبا دو مہینے کی علالت کے بعد ہمیں داغ مفارقت دے گئے ،کاتب صاحب پرانے اور قدیم لوگوں میں سے تھے، بڑے نفیس طبیعت کے آدمی تھے، صاف شفاف رہتے تھے صفائی پسند تھے ، کم گو اور خاموش مزاج تھے، اخبار بینی کا اچھا ذوق رکھتے تھے روزانہ اخبار پڑھا کرتے تھے اور صرف پڑھتے ہی نہیں ، بلکہ خبروں کو پی کر ہضم کر لیتے تھے ،صوم و صلاۃ کے پابند تو تھے ہی تہجد گزار بھی تھے منہ اندھیرے اٹھنے کے عادی تھے، اس میں کبھی تخلف نہیں ہوتا تھا صبح تڑکے اٹھ کر تہجد ادا کرتے بعدہ تلاوت میں مشغول ہو جاتے ،
کاتب صاحب ویسے تو صوبہ بہار کے مشہور و معروف ضلع مونگیر سے تعلق رکھتے تھے، زندگی بھر مدارس اور ارباب مدارس سے وابستہ رہے اور پوری تندہی و جانفشانی کے ساتھ دین کی خدمت میں مصروف عمل رہے،
آدم گری اور رجال سازی میں باکمال شخصیت کی معیت میں
طبقہ علماء و طلبہ میں مولانا وحید الزمان کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ ایک شہرت یافتہ ممتاز عالم دین تھے ، دنیائے علم میں کوئی ان سے ناواقف نہیں ، مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے موقر و ممتاز استاذ تھے،فن ادب میں وہ دستگاہ کامل رکھتے تھے
وہ آدم گری اور رجال سازی میں بے مثال تھے ، بے شمار کتابوں کے مصنف تھے، کاتب صاحب دیوبند میں حضرت مولانا کیرانوی کی معیت و رفاقت میں سالہا سال رہے ، ان کی تصنیف کردہ کئی کتابوں کو اپنے حسین و دلکش کتابت سے مزین کیا ،چنانچہ ان کی مایۂ ناز تصنیف القاموس الوحید کو حضرت کاتب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی دل آویز و خوبصورت کتابت سے زینت بخشی،
آج بھی القاموس الوحید پر ان کا نام ٫٫عبدالسمیع مونگیری ٫٫ روشن و تاباں ہے ، جو واقعتاً پس مرگ زندہ کی جیتی جاگتی مثال ہے اسی طرح کاتب صاحب نے مولانا نظام الدین اسیر ادروی کی کئی کتابوں کو اپنی کتابت سے منقش کیا، چنانچہ ان کی ایک کتاب کا نام ہے٫٫ اسرائیلیات ٫٫ اس پر بھی کاتب صاحب کا نام مرقوم ہے صرف جامعہ کے کتب خانے میں دسیوں کتابیں ان کے قلم سے نکلی ہوئی ہیں جو ان کی عرق ریزی و جانفشانی کی گواہی دے رہی ہے ،
پھر کاتب صاحب نے اپنی خدمات اور افادہ و فیضان کیلئے سرزمین گجرات کو منتخب کیا ، قریباً تین دہائیوں تک سرزمین گجرات میں اپنے فیضان کو نچھاور کرتے رہے ،
صوبہ گجرات کے کئی مدارس میں ان کی وقیع اور گراں قدر خدمات رہیں ، اون پاٹیا سورت ، کرمالی ، اور آخر میں بزرگوں کی سرزمین احمد آباد سرخیز کی زرخیز سر زمین جامعہ ابن عباس میں اپنا فیضان نچھاور کر کے دنیائے فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کر گئے،
اللہ تعالی ان کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے ۔آمین
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
آ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں