src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> گجرات فسادات کی چشم دید گواہ : 86 سالہ ذکیہ جعفری کی رحلت سے غم کا سناٹا پسرا ، سیاسی و سماجی شخصیات کا اظہار تعزیت - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

ہفتہ، 1 فروری، 2025

گجرات فسادات کی چشم دید گواہ : 86 سالہ ذکیہ جعفری کی رحلت سے غم کا سناٹا پسرا ، سیاسی و سماجی شخصیات کا اظہار تعزیت

 گجرات فسادات کی  چشم دید گواہ : 86  سالہ ذکیہ جعفری  کی رحلت سے غم کا سناٹا پسرا ، سیاسی و سماجی شخصیات کا اظہار تعزیت







احمد آباد : سال 2002 میں  ہوئے گجرات فسادات کی چشم دید اور ان فسادات کے پس پشت بڑی سازش کا الزام عائد کرنے والی ذکیہ جعفری ، جو آزادی پسند، یونینسٹ اور ادبی شخصیت  اور کانگریس پارٹی کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی اہلیہ تھیں، سنیچر یکم فروری کو اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ 


انھوں نے احمد آباد میں اپنی بیٹی نسرین کے گھر پر آخری سانس لی۔ ذکیہ کے بیٹے تنویر جعفری نے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’’میری ماں احمد آباد میں میری بہن کے گھر گئی ہوئی تھیں۔ وہ اپنے صبح کے معمولات پورے کر رہی تھی اور اپنے اہل خانہ سے بات چیت کر رہی تھیں جب بے چینی محسوس ہوئی۔ انھوں نے اپنی بے چینی کا تذکرہ کیا۔ فوری طور پر ڈاکٹر بلائے گئے۔ صبح تقریباً 11.30 بجے ڈاکٹر نے انھیں مردہ قرار دے دیا۔‘‘ ۔ انہیں احمد آباد میں اپنے شوہر احسان جعفری کی قبر کے قریب سپرد خاک کیا جائے گا۔  ان کے انتقال کی خبر سے ملک کے سیاسی و سماجی حلقے میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر تعزیتی پیغامات کا ایک دراز سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔


احسان جعفری کو 2002 کے فسادات کے دوران احمد آباد میں گلبرگ سوسائٹی کے قتل عام میں بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا، جہاں ہندو انتہا پسندوں نے احسان سمیت کئی افراد کو ذکیہ کے بالکل سامنے قتل کر دیا تھا۔

اپنے شوہر کی موت کے بعد ذکیہ نے اپنی زندگی قانونی ذرائع سے انصاف کے حصول کے لیے وقف کر دی۔ اس نے گجرات فسادات کے مجرموں کو سزا دینے کو یقینی بنانے کے لیے انتھک محنت کی۔ وہ  23 سال کے طویل عرصے تک اپنے شوہر اور گجرات کے دیگر فساد متاثرین کے لئے انصاف کی لڑائی لڑ تی رہیں  اور انصاف کی اس لڑائی کو آخری سانس تک جاری رکھا۔


ذکیہ جعفری نے 2002 کے گجرات فسادات میں مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف اپنی لڑائی میں سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا۔ اس نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے خلاف شکایت درج کرانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی قانونی جنگ کا آغاز کیا، اور یہ الزام لگایا کہ پولیس ان کے اور مسلم مخالف تشدد میں ملوث بی جے پی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے میں ناکام رہی ہے۔


سماجی اور انسانی حقوق کی کارکن تیستا سیتلواڈ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر اپنی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "انسانی حقوق کی کمیونٹی کی ایک ہمدرد رہنما ذکیہ اپا کا انتقال محض 30 منٹ قبل ہوا!تیستا سیٹالواڈ نے لکھا کہ، انسانی حقوق کی کمیونٹی کی ایک ہمدرد رہنما ذکیہ اپا صرف 30 منٹ قبل انتقال کر گئیں! ان کی بصیرت افروز موجودگی قوم کے دوست احباب اور دنیا کو یاد رہے گی! تنویرنہائی، نشرین، دوریاپا، پوتے ہم آپ کے ساتھ ہیں! طاقت اور سکون میں آرام کریں ذکیہ آپا"۔ 


گلبرگ سوسائٹی پر حملہ پولیس کے رویے کی سب سے زیادہ واضح اور عبرتناک مثال پیش کرتا ہے۔ کنسرنڈ سٹیزن ٹریبونل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہاں جو کچھ ہوا وہ گودھرا سانحہ کے بعد غالباً پہلا قتل عام تھا۔ درحقیقت، اس نے ایک نمونہ قائم کیا۔ احسان جعفری کی شخصیت کی وجہ سے یقیناً یہ پہلا ہدف تھا۔ 


2002 کے گجرات فسادات کے ققت اس علاقے میں ان مکان اور کمپاؤنڈ ایک محفوظ ٹھکانہ سمجھا جاتا تھا۔ آخرکار وہ ایک سابق رکن پارلیمنٹ تھے اور 1985 کے فسادات کے دوران اعلیٰ حکام نے ان کی حفاظت کی تھی۔ اس کے نتیجے میں جب کشیدگی بڑھ گئی تو محلے کے لوگ گلبرگ سوسائٹی کی اونچی دیواروں کے پیچھے پناہ لینے آئے۔ اس دوران احسان جعفری کے علاوہ متعدد لوگوں کو شدت پسندوں نے زندگہ جلادیا تھا۔ اور اس وقت درجنوں افراد کا قتل ہوا تھا لیکن ذکیہ زندہ بچ گئی تھیں۔ 


ذکیہ جعفری کے انتقال پر آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے شدید افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ذکیہ جعفری نے 2002 میں بھیڑ کے ذریعہ اپنے شوہر کے قتل کو دیکھا۔ تقریباً 2 دہائیوں تک انھوں نے ہندوستان کے کچھ سب سے طاقتور لوگوں کے خلاف تنہا قانونی لڑائی لڑی۔ کبھی بھی وہ خوفزدہ نہیں ہوئیں۔ آج ان کا انتقال ہو گیا۔ اللہ انھیں سکون اور احباب کو صبر کی طاقت عطا کرے۔‘‘

  مشہور و معروف خاتون صحافی رانا ایوب، ذاکر علی تیاگی، دلیپ منڈل، صبا نقوی، رنجنا بنرجی وغیرہ نے بھی ذکیہ جعفری کے انتقال پر اپنے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔


ذکیہ جعفری 2006 سے انصاف کےلئے قانونی جنگ لڑ رہی تھیں۔ اپنی لڑائی کی شروعات اس وقت کے وزیر اعلیٰ اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف شکایت درج کرانے کی کوشش کرتے ہوئے کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پولیس نے اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی اوردیگر بی جے پی لیڈروں کے خلاف مسلم مخالف قتل عام کے سلسلے میں ایف آئی درج نہیں کی تھی۔  انصاف کے لیے ان کا مطالبہ 2008 میں اس وقت زور پکڑا جب سپریم کورٹ نے حکومت کو گلبرگ سوسائٹی واقعہ سمیت نو مقدمات کی دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے 2008 میں حکومت کو گلبرگ سوسائٹی سانحہ سمیت نو مقدمات کی دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا تھا، ساتھ ہی ذکیہ جعفری کی شکایت کا جائزہ لینے کیلئے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم ( ایس آئی ٹی ) بھی قائم کی گئی تھی۔


 یاد رہے کہ دو سال قبل ، سپریم کورٹ آف انڈیا نے ذکیہ جعفری کی طرف سے ۲۰۰۲ء  کے گجرات نسل کشی کیس  میں مودی اور دیگر کئی افراد کو خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی ) کی طرف سے دی گئی کلین چٹ کو چیلنج کرنے والی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔

واضح رہے کہ دو سال قبل ذکیہ جعفری کی جانب سے 2002 گجرات فسادات مقدمہ میں مودی اور دیگر اثرورسوخ والے سیاسی رہنماؤں کو خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی ) کی طرف سے دی گئی کلین چٹ کو چیلنج کرنے والی درخواست کو سپریم کورٹ نے مسترد کردیا تھا۔ گجرات فسادات کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی ایس آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں اس وقت کے وزیر اعلی نریندر مودی سمیت 64 لوگوں کو کلین چٹ دے دی تھی جس کے خلاف ذکیہ جعفری سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ 

عیاں رہے کہ گجرات فسادات 2002 میں سینکڑوں مسلم خواتین، بچوں اور نوجوانوں و بزرگوں کو فرقہ پرست و شدت پسندوں درندوں نے قتل کردیا تھا۔ 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages