src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> "اردو جرنل" کا تازہ شمارہ۔ 'آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں' - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

جمعہ، 24 جنوری، 2025

"اردو جرنل" کا تازہ شمارہ۔ 'آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں'








"اردو جرنل" کا تازہ شمارہ۔ 'آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں' 







مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم ،




 


اردو زبان وادب کی ترویج وترقی اور اس کی آبیاری میں سرزمین عظیم آباد کی قدیم اور عظیم تاریخ وروایت رہی ہے ۔ ہر دور میں یہاں علم وادب اور فضل وکمال کے درخشندہ ستارے موجود رہے ہیں، جو دنیائے ادب کو اپنے فکر وفن سے فیضیاب بھی کرتے رہے ہیں، اور ہنوز  یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ اور یہ بات بالکل بدیہی ہے کہ اردو زبان وادب کی تاریخ ، اس کے تحفظ وبقا، اس کی ترویج واشاعت اور اسے بام عروج تک پہنچانے میں دبستانِ عظیم آباد ہمیشہ پیش پیش رہا ہے  ۔اس سرزمین کی دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس نے عملی طور پر مثبت انداز میں اردو زبان وادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ ان شعرا و ادبا کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے جو واقعی اس کے حقدار ہیں ۔ اور یہ تاریخ و روایت اسی معیار کے ساتھ اب تک قائم ودائم ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی رہے گی ۔اس کی ایک کڑی  پٹنہ یونیورسٹی  ہے جو اردو زبان وادب کی آبیاری کے لیے ہمیشہ صف اول میں نظر آتی ہے۔ شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسٹی سے یو جی سی  منظور شدہ ، شعبۂ اردو کا علمی وتحقیقی مجلہ "اردو جرنل" نے بھی ایک عرصے سے قارئین ادب کی علمی، ادبی اور ثقافتی، تشنگی دور کرنے میں کافی معاونت  کی ہے ۔ اردو جرنل ٢٠٢٤- خصوصی گوشہ : میر شناسی اس وقت میرے سامنے ہے، اس رسالہ کے مدیر ممتاز ناقد، شاعر وادیب، ماہر وباہر استاذ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی ،صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی ہیں، انھوں نے بڑے خوبصورت اور دلچسپ پیرائے میں اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے میر شناسی سے متعلق میر تقی میر کی حیات وخدمات، شعرا و ادبا اور ناقدین کے نزدیک میر تقی میر کی اہمیت اور ان کی شاعری سے متعلق منتخب جہات کے مضامین مرتب کرکے دنیائے ادب کو ایک بیش بہا تحفہ عطا کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی اہم اور نایاب رسالے شائع ہوچکے ہیں، اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ، رسالے کے مشمولات کو دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مضامین کس قدر اہم، دلچسپ، معلوماتی، اور کارآمد ہیں ۔

 میر تقی میر اور ان کی حیات وخدمات، فکر و فن کو مختلف اور دلچسپ زاویے کے ساتھ پیش کرکے یقیناً ایک تاریخ رقم کی گئی ہے ۔ میر تقی میر کی شاعری پر عرصۂ دراز گزر چکا ہے، لیکن ان کے کلام کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقت کے  ساتھ ساتھ اس پر شباب آتا جا رہا ہے ، ان کے کلام کا  اہم اور نایاب وصف یہ بھی ہے کہ یہ ہر عہد کی عکاسی کے ساتھ ساتھ مختلف زاویوں کو پیش کرتا ہے،) چوں کہ شاعری کے ذریعہ انسان اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے اور جب ایک عظیم، بلیغ، اور قادرالکلام شاعر اپنا نظریہ پیش کرتا ہے تو ماضی، حال اور مستقبل تینوں کو سامنے رکھ کر اجمالی اور تفصیلی طور پر جگ بیتی کو آپ بیتی بنا دیتا ہے ، خدائے سخن میر تقی معتبر اور زندہ دل شاعر کی حیثیت سے معروف ہیں، دنیائے ادب میں انہیں جو مقام ومرتبہ حاصل ہے وہ بے مثال ہے۔ اس طرف ہمارے ادباء کی توجہات تو مرکوز ہوئی ہیں، مگر ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے بڑے خوبصورت اور دلچسپ طرز عمل پر نئی جہت کا انکشاف کرکے نئی راہیں کھول دی ہیں ۔ ملک کے نامور ادباء کے مضامین اردو جرنل میں شامل ہیں، مضامین کے مطالعہ سے میر تقی میر کی شخصيت و فن کے مختلف پہلوؤں کا انکشاف ہوتا ہے۔

512/صفحات پر مشتمل یہ رسالہ دو حصوں میں منقسم ہے، اور مجموعی طور پر 55/ مضامین شامل ہیں۔

پہلا حصہ میر شناسی :(معتقد کون نہیں میر کی استادی کا) جن میں 33/ مضامین ہیں، اور ان مضامین میں میر کی شخصیت وفن کے سلسلے میں اردو زبان وادب کے نامور ہستیوں اور ناقدین کی رائے کو یکجا کرکے میر کی شخصیت اور ان کی شاعرانہ عظمت کو خوبصورت پیرائے میں پیش کیا گیا ہے، جبکہ دوسرا حصہ میر تقی میر :(ہرسخن اس کا اک مقام سے ہے) کے عنوان سے معنون ہے۔ یہ 22/ مضامین پر مشتمل ہے، ان مضامین میں میر تقی میر کی شاعری، شخصیت، ان کے تخیلاتی پرواز وغیرہ جیسے موضوعات پر عمدہ مضامین پیش کیے گئے ہیں ۔اس رسالہ کی کمپوزنگ شمسی گرافس، سبزی باغ پٹنہ نے کی ہے، اسے شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسٹی سے 600/ روپے قیمت دے کر حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ ۔کتاب کی شروعات ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے "پہلی بات" کے عنوان سے کی ہے۔ اس میں  وجہ تصنیف وتالیف کے ساتھ ساتھ میر تقی میر کے سلسلے میں بہت ہی عمدہ اور دلچسپ باتیں تحریر کی گئی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ : 

اردو جرنل کا پندرہواں شمارہ قدرے تاخیر سے مگر حسب وعدہ میر تقی میر نمبر کی صورت میں حاضر ہے۔ میر کے تین سوسالہ جشن ولادت کے سلسلے میں متعدد سیمینار ، سمپوزیم منعقد کیے گئے اور رسائل کے خصوصی شمارے خاصی تعداد میں منظر عام پر آچکے ہیں، ایسے میں یہ سوال اٹھنا جائز ہے کہ میر پر ایک اور نمبر کا جواز کیا ہے؟ یہ سوال ہمارے ذہن میں بھی اٹھا تھا اس لیے ہم نے اس شمارے کو دو جہتوں سے مختلف بنانے کی کوشش کی ہے۔ اول یہ کہ اکثر میر کو یاد کرتے ہوئے ہمارے اکابرین کے پرانے مضامین کو فوقیت دی گئی تھی اور چند مضامین بار بار دہرائے گئے تھے۔ ان مضامین کی اہمیت وافادیت سے انکار نہیں مگر ان سے تین سو سال کے بعد مطالعہ میر کی کوئی نئی تصویر سامنے نہیں آسکتی ہے۔ اس لیے ہم نے کوشش کی ہے کہ چند بہت اہم پرانے مضامین کے ساتھ ساتھ نئے مطالعات اور نئی تحریروں کو بھی جگہ دیں تا کہ میر کی تفہیم جدید ذہن کے ذریعہ بھی سامنے آسکے ۔ دوسری جہت یہ ہے کہ ہم نے میر کے ساتھ ساتھ میر کے ناقدین و محققین کو بھی موضوع بنایا ہے اور ان کی میرشناسی کے خصائص پر گفتگو کی کوشش کی ہے ۔ ہم یہ دعوی تو نہیں کر سکتے کہ میر شناسی کے باب میں تمام ناقدین و محققین کے کارنامے سامنے آگئے ہیں مگر بہت کد و کاوش کے بعد اتنے مضامین ضرور حاصل کر لیے گئے ہیں جو میریات کے باب میں ایک ایسے پہلو کا اضافہ کرتے ہیں جس کی جانب کسی اور رسالے نے توجہ نہیں دی تھی ۔ ہم اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں اس کا فیصلہ تو قارئین ہی کریں گے مگر ہم مطمئن ہیں کہ میر کو یاد کرنے والوں میں شامل ہونے کی ہم نے بھی بساط بھر کوشش کی ہے۔

میر تقی میر ہماری ادبی روایت کا بڑا معتبر اور اہم نام ہے جس کے بغیر اردو ادب کی کوئی تاریخ نہ مکمل ہو سکتی ہے اور نہ اعتبار پاسکتی ہے۔ تقریباً تین سو سال سے ان کی عظمت کا بالا تفاق اعتراف کیا جاتا رہا ہے اور بقول فراق ان کی شاعری کو عالمگیر مقبولیت حاصل رہی ہے۔ ان کے ہم عصر اور بعد کے شعرا میں اکثر نے میر کے تئیں اپنی عقیدت کا برملا اظہار کیا ہے۔ غالب جیسا شاعر بڑے فخر سے کہتا ہے۔

غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ

آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں۔۔

رسالہ میں شامل جن ادبا کے مضامین ہیں ان کی فہرست اس طرح ہے، ابوالکلام قاسمی، شہاب الدین ثاقب، سید شاہ حسین احمد، کوثر مظہری، اسلم جمشید پوری، سرورالہدی، ریشماں پروین، سید ظفر اسلم، اشتیاق احمد، عمیر منظر، ندیم احمد، عبد السمیع، سورج دیو سنگھ، سلمان عبد الصمد، محمد نور نبی انصاری، معید الرحمن، عدنان صالحین، محمد مقیم، نہال احمد انصاری، شفقت نوری، محمد ابرار، صالحہ صدیقی، طاہر حسین، خیر الدین اعظم (علیگ)، شبنم پروین، عشرت صبوحی، محمد ضمیر رضا، فائز عظیم احمد، شاہد وصی، صابر رضا رہبر، حذیفہ شکیل، محمد کمیل رضا، علی احمد فاطمی، حقانی القاسمی، نجمہ رحمانی، ابوبکر عباد، احمد امتیاز، محمد حامد علی خان، نصرت جہاں، عبدالسمیع، احسن ایوبی، خلیق الزماں نصرت، عبد الرشید منہاس، ثاقب فریدی، تعبیر کلام، محمد ہاشم رضا، بالمیکی رام، سعدیہ صدف، محمد علیم الدین شاہ، محمد شہنواز عالم، امام الدین امام، محمد محسن خان، محمد مجاہد حسین، شبانہ پروین۔

ہم مجموعی طور پر ان مضامین کے ذریعہ میر تقی میر کو بہت قریب سے پہچان سکتے ہیں۔ 

تمام مضامین نایاب، اور وقت کے لحاظ سے کافی کارآمد ہیں۔ رسالے میں شامل تمام مضامین پر گفتگو ممکن نہیں ہے، شامل اشاعت چند مضامین سے اقتباسات پیش کر رہا ہوں، جس سے رسالہ کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔

ابوالکلام قاسمی صاحب کے مضمون سے اقتباس :

" اردو شاعری سے متعلق استناد سازی کا جو کردار محمد حسین آزاد کی کتاب آب حیات سے بالعموم ادا کیا گیا، وہی رول اس کتاب نے میر شناسی کے سلسلے میں بھی ادا کیا ، یہی سبب ہے کہ تقریبا نصف صدی سے زیادہ عرصے تک میر تنقید میں بھی ان ہی مفروضات کو مسلمات کی حیثیت حاصل رہی جو محمد حسین آزاد کے قائم کردہ تھے۔

آزاد نے میر کی شخصیت کے بارے میں رائے دی کہ ان کی طبیعت میں شگفتگی اور جوش و خروش نام کو نہ تھا اور یہ کہ وہ خود پسند، خود میں اور مردم بیزار تھے۔۔۔۔ میر کی غزلوں کے اشعار کے بارے میں آزاد کی رائے ہے کہ اگر چہ وہ رطب و یا بس سے بھرے ہوئے ہیں مگر جو ان میں انتخاب ہیں وہ فصاحت کے عالم میں انتخاب ہیں ۔ اور جہاں تک انتخاب کا سوال ہے تو آزاد نے اس ضمن میں بھی اس روایتی رائے کو دہرایا کہ اردو زبان کے جوہری قدیم سے کہتے آئے ہیں کہ ستر اور دو بہتر نشتر ہیں ۔ باقی میر صاحب کا تبرک ہے ۔ آزاد نے اس تاثر کو عام کیا کہ زبان اور خیالات میں میر صاحب نے جس قدر فصاحت اور صفائی پیدا کی اس قدر بلاغت کو کم کیا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ میر کے کلام کی تاثیر اور اس کے لازمی عنصر ، ترسیل کا اعتراف کرنے کے باوجود آزاد نے بلاغت کی کمی کا شکوہ کیا ، اور اس طرح انھوں نے اپنی تنقیدی رائے کو میر کے بارے میں رائج تصورات کے تابع رکھا اور یہ بھی نہ دیکھا کہ ان کی مختلف باتیں کیوں کر ایک دوسرے کی نفی کرتی ہیں۔ البتہ اس سلسلے میں آزاد نے میر شناسی میں ایک قدم آگے بڑھایا کہ انھوں نے میر کے مضامین کا تعلق ان کی واردات سے اور دوسری طرف غم واندوہ میں ڈھلے ہونے کے باعث اثر انگیزی سے جوڑ دیا۔۔۔"

پروفیسر شہاب الدین ثاقب صاحب مضمون سے اقتباس :

" ذکر میر کی اشاعت سے قبل تو کسی تذکرہ نگار کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ میر کے والد نے دو شادیاں کی تھیں اسی لیے تمام تذکرہ نگاروں نے میر کو سراج الدین علی خاں آرزو کا ہمشیرہ زادہ یا بھانجا لکھا ہے۔ خود قائم چاند پوری نے بھی مخزن نکات میں میر کے ترجمہ احوال میں لکھا ہے کہ : " آبایش از نجباے دار الخلافت اکبر آباد اند. چون به خان مغفرت نشان شیخ سراج الدین علی خاں آرز و نسبت خواهرزادگی داشت، بعد فوت والد بزرگوار بہ ہمیں مناسبت وارد شاہجہاں آباد گردیدہ۔۔۔۔ غور طلب ہے کہ جب قائم بھی خود میر کو خان آرزو کا بھانجا قرار دیتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ سودا بھی یہی سمجھتے ہوں گے تو سودا اور قائم دونوں کو یہ اچھی طرح معلوم رہا ہوگا کہ وہ اپنے اشعار کے ذریعے میر کے سلسلے میں کوئی حقیقت بیان نہیں کر رہے ہیں بلکہ صرف میر کوستانا مقصود ہے۔"

پروفیسر کوثر مظہری کے مضمون سے اقتباس :

" میر تقی میر کو اپنی شاعری اور تخلیقیت پر بہت بھروسہ تھا۔ یہ بھروسہ اور اعتماد کچھ اس قدر کامل ہوا کہ ان کی شاعری تخلیقی ایجاز کے ساتھ اعجاز کو پہنچ گئی۔ تخلیقی قدرت کے سبب ہی تعلی پیدا ہوتی ہے سو میر کے یہاں اس کی بے شمار شہادتیں ہیں ۔ وہ شہادتیں بھی جو کہ خارجی ہیں اور وہ شہادتیں بھی جو کہ ان کے کلام میں داخلی طور پر واقعتا موجود ہیں ۔ میر کو یہ حق ہے کہ وہ کہیں :

سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا

 مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔"

حقانی القاسمی کے مضمون سے اقتباس:

" صوفی طبع اور پاک طینت میر محمد علی ( علی متقی ) کے فرزند میر تقی میر اکبر آبادی (پ: فروری 1723 و : 20 ستمبر 1810) بھی اس کائنات کے فرد تھے، جو مجموعہ اضداد ہے۔ ان کی شخصیت اور شاعری میں بھی تضادات کی کیفیت نمایاں ہے۔ شاید یہ خاندانی تضادات کا بھی اثر ہے۔ کہیں میر تقی میر خود کو عاجز ترین خلق عالم کہتے ہیں تو کہیں یہ کہتے ہیں :

ریختہ رتبہ کو پہنچایا ہوا اس کا ہے

معتقد کون نہیں میر کی استادی کا۔"

ڈاکٹر صالحہ صدیقی کے مضمون سے اقتباس :

"میر تقی میر کو ہر عہد کے محققین وناقدین اور تذکرہ نگاروں نے کئی حوالوں سے پیش کیا ہے اور میر شناسی کے کام کو آگے بڑھاتے رہے ہیں۔ محققین نے تحقیقی سطح پر ان کی شخصیت اور حالات زندگی کے بعض نہاں اور بعض عیاں گوشوں پر روشنی ڈالی ہے اور ان کی مکمل شخصیت کو سامنے لانے کی کوشش کی۔ جب کہ ناقدین نے تنقیدی سطح پر ان کی شاعری اور ان کے عہد کی صورت حال کے تفصیلی مطالعہ کے ذریعے میر شناسی کے اہم رجحانات کو واضح کیا۔ میر شناسی ، میر کی اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے۔ میر نے بذات خود اپنی شاعری کی بعض خصوصیات کا ذکر اپنے اشعار میں کیا ہے۔

ان اشعار سے میر شناسی کے بعض رجحانات کی نشان دہی کی جاسکتی ہے۔ 

جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز

تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا۔

ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اس کا ہے

معتقد کون نہیں میر کی استادی کا۔"

حذیفہ شکیل کے مضمون سے اقتباس :

"اردو شاعری کی طویل ترین تاریخ میں جتنی شہرت و مقبولیت ، عزت و عظمت اور عقیدت و احترام تا جدار اقلیم سخن، شہسوار میدان تغزل میر تقی میر کے حصے میں آئی ہے اس کی مثال خال خال ہی نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعترافات فن میر کا جو سلسلہ حیات میر میں ہی شروع ہو چکا تھا وہ میر صاحب کے انتقال کے 214 سال بعد بھی تا ہنوز جاری ہے۔ میر کی شخصیت اور فکر وفن پر سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں، اردو رسائل کے ذخیرے میر شناسی کے حوالے سے بھرے پڑے ہیں۔ جہات میر کی ہر ایک جہت پر ناقدین شعر و ادب نے خوب لکھا ہے۔ الگ الگ زاویوں سے کلام میر کو دیکھا سمجھا، پر کھا اور پیش کیا ہے۔"

رسالہ میں شامل مضامین موجودہ وقت کے ساتھ ساتھ مستقبل میں بھی قارئین ادب کے لیے ایک دستاویزی حیثیت کا حامل ہوگا۔

قارئین ادب سے خصوصی گزارش ہے کہ اس رسالہ کا مطالعہ کرکے اپنی معلومات میں اضافہ کریں۔

ہم اپنی جانب سے خصوصی طور پر ممتاز ناقد، شاعر وادیب واستاذ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کو اور عمومی طور پر پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کرتے ہیں، جنہوں نے اس رسالہ کی ترتیب وتالیف میں اپنا تعاون پیش کیا۔





مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم 

معلم چک غلام الدین ہائی اسکول ،ویشالی بہار 

موبائل نمبر 7909098319


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages