پُر نم آنکھوں سے تجھے سپردِ خاک کرتے ہیں مرحومہ جمیلہ میڈم
از :- امتیاز رفیق سر
مورخہ 7 دسمبر 2024 بروز سنیچر کی صبح ایک سورج غروب ہوگیا جس کی روشنی بے شمار چراغوں میں فروزاں ہے اب بھی...مشہور زمانہ قول ہے کہ خزانے اور نایاب چیزیں دفن ہوتی ہیں زمین میں اور ایک ہم ہیں کہ بمثل خزانہ ہم زمین میں مدفن کرآئے..... مالیگاؤں شہر کے قدیم علاقے اسلام پورہ، کمال پورہ کی مشہور و معروف شخصیت مرحوم شفیع اللہ (لالہ بھیا)کی لڑکی ڈاکٹر انور کمال اور سنی دعوت اسلامی مالیگاؤں کے فعال رکن خالد نوری کے بہن اے ٹی ٹی ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کی سینئر معلمہ جمیلہ میڈم اس دار فانی سے کوچ کر گئیں.
مرحومہ موصوف کے اوصاف کو بیان بڑا ہی مشکل امر ہے بالخصوص اُس شاگردِ مکتب کے لیے جو آپکے پسندیدہ شاگردوں میں سے ہو... اور یہی وجہ کہ ہے پرنم آنکھوں اور لرزتے ہاتھوں سے یادِ ماضی کا سفر طے کر رہا ہوں.... آپکی شخصیت ایک استاذ سے بہت بلند و بالا تھی..... قلم کار تمثیلی زبان میں کہتا ہے کہ استاذ پتھروں کو تراش کر مورت بناتا ہے جس کے افکار، قول و فعل کی دنیا تعظیم کرتی ہے لیکن یہ کوئی تمثیل نہیں ہے کہ مرحومہ جمیلہ میڈم نے ہم طفلانِ مکتب کو سجایا، سنوارا اور تعلیم و تعلم کے زیور سے آراستہ کیا اور آپ محترمہ کی تربیت کے طفیل ہی ہم آج ہم برسرِ روزگار ہیں..... مرحومہ نے اپنی مکمّل زیست کو اہل خانہ، اسکول، گھر خاندان اور رشتہ داروں کی نظر کردی تھی. آپکی شخصیت میں بڑی بہن کی مشاورت، ماں کی ممتا اسکی شفقت ہمدردی اس طرح پیوستہ تھی کہ جس کی کوئی نظیر شاید ہی عصر حاضر میں نہ ملے..... زبان و بیان، علم اور ادب پر آپکو وہ ملکہ حاصل رہا کہ طالب علمی کے زمانے سے ہی ہم شاگردوں پر آپکی تدریس عیاں تھی..... جونیئر کالج وہ زمانہ یاد آتا ہے جب عمر کا بانکپن شباب پر تھا، پڑھائی کم اور دھوم دھام زیادہ ہوا کرتی تھی.... مخلوط تدریسی نظام کے جواز ہم جماعت طلباء و طالبات میں معاشقہ وغیرہ تعلیم کی ترویج میں آڑ نہ بن جائے اس کے لیے آپ کا طلبہ سے اس انداز میں گفتگو کرنا، انھیں سمجھانا اور وقت کی ضرورت کے ساتھ ساتھ والدین کے خوابوں کی تعبیر کو مکمل کرنے کی باتیں کرنا اس قدر پر اثر ہوتی کہ آپ محترمہ کا مقامِ احترام ہی ممتاز ترین تھا.... آج سے دیڑ دہائی قبل کی بات ہے سن 2010 ہم تمام احباب کا بارہویں کا زمانہ تھا.... مالی حالت اس قدر مضبوط نہ تھی کہ کسی نجی ٹیوشن میں داخلہ لے سکیں... تعلیمی جستجو کو دیکھتے ہوئے مرحومہ موصوف نے ہم طفلانِ مکتب کو روزانہ ایک گھنٹہ اضافی تدریس کے فرائض بلامعاوضہ انجام دینے کا ارادہ کرلیا اور باقاعدہ پورا سال اس فریضہ کو مکمل کیا ....قلب مضطر کو سکون نہیں کہ تمہیں کس زبان و قلم سے مرحومہ لکھا جائے......کیفی اعظمی نے شاید اس سوگوار موقع کے لیے ہی لکھا تھا کہ
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
آپ مرحومہ کے اوصاف اظہر من شمش ہیں ، آپ صوم و صلاۃ کی پابند، آپکے اوصافِ حمیدہ میں عاجزی، انکساری، متانت، ہمدردی، ایمانداری، احترامِ انسانی، حقوق کی ادائیگی جیسی بےشمار خوبیاں شامل تھیں. موت سے نجات کا کوئی راستہ گر ہوسکتا ہے وہ شاید یہی ہو کہ اوروں کہ ذہن میں زندہ رہا جائے اور بے شک آپ محترمہ ہمارے ذہن و افکار ہماری گفتگو و تدریس میں ہمیشہ زندہ و جاوید رہینگی
آپکی رحلت کا غم بیاں کرنا مشکل ہے اس امرِ الہی پر ہم شاگردوں کی جانب سے تعزیت مسنون پیش کرتے ہیں۔
اہل خانہ کے اس غمگین وقت میں ہم برابر کے شریک ہیں درِ الہی دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی کروٹ کروٹ مغفرت فرمائے
جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے
اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے آمین.
شریکانِ غم
مفتی اسامہ صاحب
امتیاز رفیق سر
عادل اکرام صاحب
مجیب الرحمن MA مارکیٹنگ
یاسین صاحب
فیضان نورانی صاحب
توصیف اختر صاحب
فرحان احمد صاحب
سفیان احمد صاحب
محمد قاسم صاحب
ماجد احمد صاحب
عبدالباسط صاحب و دیگر شاگرد بیچ 2010
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں