سنبھل میں ہونے والے ہنگامہ کا پورے طور پر پولیس پرشاسن ذمہ دار
لکھنؤ : 27؍ نومبر 2024 قائد ملت امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب صدر جمعیۃ علماء ہند اور مولانا سید اشہد رشیدی صاحب صدر جمعیۃ علماء اترپردیش کے حکم پرکل مؤرخہ25؍نومبر 2024کو جمعیۃ علماء یوپی کا ایک وفد ۱۰؍ افراد پر مشتمل مولانا عبدالجلیل قاسمی اور مولانا سید کعب رشیدی کی سربراہی میں سنبھل پہنچا۔ دیکھا کہ پورا شہر خوف وہراس میں ہے، سڑکوں پر سناٹا ہے، تمام دکانیں اور کاروبار بند ہیں، خوف کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل رہے ہیں، حالات نہایت تشویشناک ہے۔ وہاں کے لوگوں سے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ پہلا سروے ۱۹؍ نومبر ۲۰۲۴ء کو عدالت کے حکم پر، پرسکون ماحول میں ہوا تھا۔ دوسرا سروے ۲۴؍ نومبر کو بغیر عدالتی حکم کے ہوا ، اس سروے ٹیم کے ساتھ شرپسند عناصر کا ایک گروپ بھی تھا، جو بلند آواز سے ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے مسجد کے اندر پہنچا۔ جیسے ہی مقامی لوگوں کو دوبارہ سروے اور ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے کی اطلاع ملی، تو مسلم کمیونٹی کے لوگ بھی مسجد کے باہر دیکھنے کے لئے جمع ہوگئے۔ پولیس انتظامیہ نے لوگوں کو ہٹانے کی کوشش کی لیکن لوگ وہیں پر پرسکون انداز میں کھڑے رہے۔ تقریباً پونے دو گھنٹے سروے امن وسکون کے ساتھ چلا، اس کے بعد سنبھل سی او نے کئی لوگوں کو ڈنڈے سے دھکا دیا اور ان کو زد وکوب کیا، جس کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی، پھر پولیس نے لاٹھی چارج کئے اور آنسو گیس کے گولے چھوڑے ، پھر اسی اثناء میں نامعلوم لوگوں نے پتھراؤ شروع کر دیا۔ اور مقامی لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ پتھراؤ کرنے والے اس علاقہ کے نہیں تھے، پھر پولیس نے اندھا دھند گولی چلائی جس کی وجہ سے اب تک چھ لوگوں کی جان جا چکی ہے، اور کئی لوگ زخمی ہیں۔ مرنے والوں میں اکثر غریب مزدور لوگ تھے جو روز مرہ کے کام کے لئے بازار میں واقع اپنی دکانوں میں جا رہے تھے، یہ لوگ کسی بھی طرح کے پتھراؤ یا فساد میں شریک نہیں تھے۔
قابل ذکر ہے کہ شہداء کے ورثاء اور جامع مسجد کے اطراف وجوانب میں رہ رہے لوگوں سے ملاقات کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ پولیس کا رویہ عام مسلمانوں کے ساتھ انتہائی ظالمہ نہ، جارحانہ اور جابرانہ تھا، وہ پورے ماحول میں دہشت پیدا کر رہے تھے اور لوگوں کو مغلظات گالیاں دے رہے تھے، لیکن مسلمانوں نے پھر بھی صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا اور کسی بھی طرح کے اشتعال انگیزی کا جواب نہیں دیا۔
جمعیۃ کے وفد نے تین شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور تعزیتی کلمات کہے، اظہار ہمدردی کی اور ان کو ہر طرح کی تعاون دینے کی یقین دہانی کرائی ۔ جن کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں:
(۱) محمد رومان مرحوم ولد چھوٹے خان محلہ حیات نگر (۲) محمد بلال مرحوم ولد محمد حنیف محلہ باغیچہ سرائے ترین (۳) محمد نعیم مرحوم محلہ کوٹ غربی ۔ مجموعی طور پر شہداء کی تعداد چھ ہوچکی ہے۔ اور کچھ کی حالت انتہائی نازک ہے۔ وفد نے ادھیکاریوں سے ملنے کی کوشش کی لیکن ان کو وقت نہیں دیا گیا۔
جمعیۃ علماء کا وفد لوگوں سے گفتگو اور ملاقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ سنبھل شاہی جامع مسجد کا واقعہ مسلمانوں کے خلاف ایک مکمل پری پلان سازش کا حصہ ہے، جس کی ہائی کورٹ کی مونیٹرنگ میں ایک جوڈیشیل انکوائری ہونی چاہئے اور اس میں ملوث سرکاری اور غیر سرکاری افراد کو آئین اور قانون کے مطابق سزا دلائی جائے۔
وفد کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں : مولانا عبدالجلیل قاسمی، مولانا سید کعب رشیدی، مولانا محمد عثمان قاسمی، مفتی محمد راشد قاسمی، مولانا عمران ذاکر قاسمی، مفتی محمد رفاقت قاسمی، مفتی ریاض الحق قاسمی، مولانا شمشاد ندوی، جناب محمد فیروز ، مولانا محمد تنظیم قاسمی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں