مولانا کلیم صدیقی و عمر گوتم تبدیلی مذہب معاملہ
جمعیۃعلماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) کی جانب سے وکلاء نے ملزم عرفان کے دفاع میں بحث کی
سیشن عدالت 10/ ستمبر کو فیصلہ ظاہر کرسکتی ہے
لکھنؤ9/ ستمبر
مبینہ جبراً مذہب تبدیل کرانے کے الزام میں مشہور عالم دین مولانا کلیم صدیقی کے ساتھ گر فتار عرفان خواجہ خان کے دفاع میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کی جانب سے ایڈوکیٹ عارف علی نے لکھنؤ سیشن عدالت میں حتمی بحث کی۔ دوران بحث ایڈوکیٹ عارف علی کی معاونت ایڈوکیٹ فرقان پٹھان، ایڈوکیٹ سیف و دیگر نے کی۔
لکھنؤ سیشن عدالت کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج (تھری) وویکانند شرن ترپاٹھی کو ایڈوکیٹ عارف علی نے بتایا کہ استغاثہ ملزم کے خلاف عدالت میں پختہ ثبوت پیش نہیں کرسکا ہے جس کی بنیاد پر ملزم کو اس مقدمہ میں قصور وار ٹہرایا جاسکے۔ اس مقدمہ میں استغاثہ نے ملزمین کے خلاف گواہی دینے کے لیئے 24 / سرکاری گواہوں کو پیش کیا جس میں چیف تفتیشی افسر کی گواہی بھی شامل ہے لیکن ان تمام گواہان کی گواہی پختہ نہیں ہے۔
ایڈوکیٹ عارف علی نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزم عرفان اور دیگر ملزمین کے خلاف گواہی دینے والے گواہان کے بیانات میں کھلا تضاد ہے۔ گواہان نے عدالت میں پہلی مرتبہ ملزم عرفان کے دیگر ملزمین کے ساتھ تعلق کا ذکر کیا۔ملزم عرفان کی گرفتاری ہی مشکوک ہے کیونکہ ملزم عرفان کا نام ایف آئی آر میں درج ہی نہیں کیا گیا تھا بلکہ بعد میں اسے دیگر ملزمین کے بیانات کی روشنی میں گرفتار کیا گیا۔
ایڈوکیٹ عارف علی نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزم عرفان نے گرفتاری سے قبل پولس کے ساتھ مکمل تعاون کیا تھا اس کے باوجود پولس نے اسے گرفتار کرلیا اور پھر اس کی گرفتاری کی معقول وجہ بھی نہیں بتائی۔
ایڈوکیٹ عارف علی نے عدالت کو مزید بتایا کہ گواہ استغاثہ لکشمی گپتا اور ادتیہ گپتا نے 2020 میں اسلام قبول کیا تھا جبکہ اتر پردیش پروہیبشن آف ین لاء فل کنورژن آف ریلیجن قانون 2021 میں بنا تھا لہذا اس قانون کا اطلاق اس مقدمہ پر ہوتا ہی نہیں نیز اس قانون کے مطابق متاثر یا اس کے رشتہ دار ایف آئی آر درج کراسکتے ہیں لیکن موجودہ مقدمہ میں ونود کمار (اے ٹی ایس افسر) نے شکایت درج کرائی ہے جس کی بنیاد پر ملزمین کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا۔
ایڈوکیٹ عارف علی نے عدالت کو مزید بتایا کہ اس مقدمہ کی بنیاد ہی غیر آئینی ہے لہذا ملزم عرفان اور دیگر ملزمین کو مقدمہ سے بری کیا جائے۔ عدالت عارف علی نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزم عرفان کا تعلق ایک معزز گھرانے سے ہے اور مرکزی سرکار کے محکمہ میں برسر روزگار ہے لہذا اسے محض شک کی بنیاد پر مجرم قرار نہیں دیا جانا چاہئے۔ ملزم عرفان کے علاوہ بھی دیگر ملزمین کے وکلاء نے سیشن عدالت میں حتمی بحث کی اور ملزمین کو مقدمہ سے بری کیئے جانے کی عدالت سے گذارش کی۔
فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد عدالت نے مقدمہ کا فیصلے ظاہر کرنے کے لیئے 10/ ستمبر کا دن متعین کیا ہے۔
واضح رہے کہ ا تر پردیش انسداد دہشت گرد دستہ ATSنے عمر گوتم، مفتی قاضی جہانگیر قاسمی، مولاکلیم صدیقی سمیت کل 17ملزمین کو جبراً تبدیلی مذہب کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور ان پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ پیسوں کا لالچ دے کر ہندوؤں کا مذہب تبدیل کراکے انہیں مسلمان بناتے تھے اور پھر ان کی شادیاں بھی کراتے تھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں