الفاظ اور شاعرانہ اصطلاحات کے سلطان تھے مجروح سلطانپوری
(مئی برسی کے موقع پر 24)
ممبئی، 23 مئی (یو این آئی) اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول، کتنا نازک ہے دل یہ نہ جانا، ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ ، جب دل ہی ٹوٹ گیا، ہم جی کے کیا کریں گے ، ہمیں تم سے پیار کتنا ، جیسے معروف نغموں کے خالق مجروح سلطان پوری یکم اکتوبر 1919 کو اتر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اسرار الحسن خان تھا۔ والد پیشہ سے سب انسپکٹر تھے۔ انھیں اعلیٰ تعلیم دینا چاہتے تھے لیکن مجروح نے ساتویں جماعت مکمل کرنے کے بعد عربی و فارسی کی تعلیم کے لیے سات سالہ کورس میں داخلہ کر دیا۔ اردو ، فارسی اور عربی میں مجروح نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ درس نظامی کا کورس مکمل کرنے کے بعد عالم بنے، جس کے بعد لکھنو کے تکمیل الطب کالج سے یونانی طریقہ علاج میں تعلیم حاصل کی اور حکیم بن گئے۔ اپنا دواخانہ چلایا، جہاں وہ مریضوں کو حکیمانہ نسخوں سے صحت یاب کرتے تھے۔ حکیمی دواخانہ کے ساتھ ساتھ سلطان پور میں مشاعروں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ شعر و شاعری کا شوق تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ حکمت کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شعر و شاعری سے رشتہ جوڑ لیا۔ ایک مرتبہ سلطان پور میں مشاعرے میں غزل پڑھی جسے سامعین نے بے حد سراہا۔ اس طرح مجروح نے حکمت چھوڑ کر شاعری کے ذریعے معاشرے
کی نبض پہ ہاتھ رکھنے کا سوچا۔ پھر لفظوں سے لوگوں کا علاج کرنے لگے۔ ایسے وقت میں جگر مراد آبادی سے ملاقات اور ان کی صحبت نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ کم عمری سے ہی مشاعروں میں شرکت کرنے کے عادی مجروح اب بیرون ریاست مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے تھے۔ شعر و شاعری اور فلموں میں نغمہ نگاری کے دوران انھوں نے اپنا تخلص مجروح رکھا اور پھر مجروح سلطان پوری کے نام سے ہی معروف ہو گئے۔ مجروح اردو غزل کے منفر د شاعر تھے ، لیکن اُن کی غزلیات کی تعداد ستر سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اُن کا شمار ترقی پسند شعر اُمیں ہوتا ہے۔ مجروح اردو غزل کے منفر د شاعر تھے۔ اُن کا شمار ترقی پسند شعر اُمیں کیا جاتا ہے۔ جگر مراد آبادی کو مجروح اپنا استاد مانتے تھے۔ مجروح نے اپنا پہلا فلمی گیت ، غم دیئے مستقل 1945ء میں فلم شاہجہاں کے لیے تحریر کیا تھا۔ اس نغمے نے مجروح کو فلمی نغمہ نگاروں کی پہلی صف میں لاکھڑا کیا۔ جن کی ہر طرف دھوم مچ گئی ان کا یہ گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے: پھر مجروح کا یہ فلمی سفر پانچ دہائیوں تک چلتارہا۔ البتہ مجروح کو یہ پسند نہیں تھا کہ ان کی شاعری کو فلم یا فلمی دنیا کے حوالے سے جانا جائے۔ ان کا فلمی گیت لکھنے کا اپنا ایک
خاص انداز تھا۔ فلمی گیتوں میں بھی مجروح نے ادبی تقاضوں کو بر قرار رکھا۔
جاری...۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں