سی آر پی ایف کیمپ رامپور حملہ مقدمہ: پھانسی اور عمر قید کی سزاؤں کے خلاف داخل اپیل پر فریقین کی بحث مکمل، فیصلہ محفوظ
جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی نے ملزمین کو قانونی امداد فراہم کی
الہ آباد 21/ مئی : سی آر پی ایف رامپور مقدمہ میں نچلی عدالت سے چار ملزمین کو ملنے والی پھانسی کی سزا کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں داخل اپیل پر آج د فاعی وکلاء کی بحث مکمل ہوگئی جس کے بعد عدالت فیصلہ محفوظ کرلیا۔ اس اہم مقدمہ کا فیصلہ عدالت گرمی کی تعطیلات ختم ہونے کے بعد کرسکتی ہے۔
چار ملزمین کو پھانسی کے علاوہ نچلی عدالت نے ایک ملزم کو عمر قید کی سزا بھی سنائی تھی جس کے خلاف بھی اپیل داخل کی گی تھی، عدالت نے تمام اپیلوں پر یکجا سماعت کی ہے۔ ان ملزمین کو قانونی امدا د جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی نے دی۔
31 دسمبر 2007کی شب رام پور میں واقع سینٹرل ریزروپولس فورس کیمپ پر ہوئے حملہ کے الزام میں نچلی عدالت نے ملزمین عمران شہزاد،محمد فاروق صباح الدین اور محمد شریف کو سزائے موت،جبکہ جنگ بہادر کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ ملزمین کے دفاع میں ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے بحث کی جبکہ ان کی معاونت ایڈوکیٹ انیل باجپائی اور ایڈوکیٹ سکندر خان نے کی۔ اپیل داخل کرنے سے لیکر فیصلہ محفوظ کیئے جانے تک الہ آباد ہائی کورٹ میں کل 39/ سماعتیں ہوئیں، دہلی سے الہ آباد جاکر ایم ایس خان نے متعدد تاریخوں پر بحث کی۔
دوران سماعت ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے جسٹس سدھارتھ ورما اور جسٹس رام منوہر نارائن مشراء کو بتایا کہ نچلی عدالت نے ملزمین کی جانب سے پیش کیئے گئے ثبوت وشواہد کو یکسر خارج کردیا جبکہ استغاثہ کیجانب سے پیش کیئے گئے نا قابل قبول ثبوتوں کو قبول کرلیا اور ملزمین کو سخت سزائیں دیں جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے نیز سرکاری گواہوں نے دوران گواہی ملزمین کی شناخت بھی نہیں کی تھی اس کے باوجود ٹرائل کورٹ نے ان کی گواہیوں کوقبول کرلیا۔
ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے عدالت کو مزید بتایاکہ مقامی پولس اور سی آر پی ایف جوانوں کے بیانات میں تضاد ہے اسی طرح ریلوے افسران کی گواہی میں بھی واضح تضاد ہے نیز پولس اور سی آر پی ایف کیجانب سے 98/ راؤنڈ فائرنگ کے باوجود ایک بھی ملزم کو گولی نہیں لگی جس کی وجہ سے استغاثہ کے دعوی کی قلعی کھل جاتی ہے کہ ملزمین کو حادثہ کے مقام سے گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر فائرنگ کی گئی تھی۔اسی طرح ملزمین کے قبضوں سے مبینہ طور پر ضبط کیئے گئے آتش گیر مادے عدالت کی اجازت کے بغیر ضائع کردیئے گئے لہذا آتش گیر مادے کی ضبطی مشکوک ہوجاتی ہے۔
ایم ایس خان نے عدالت کو مزید بتایا کہ یو اے پی اے قانون، آرمس ایکٹ، آتش گیر مادہ کے قانون کے اطلاق کے لیئے حاصل کیا گیا ضروری اجازت نامہ غیر قانونی ہے، اجازت نامہ میں خامیاں ہیں اور یہ ایسی خامیاں ہیں جس کا اگر باریک بینی سے مطالعہ کیاجائے تو پورا مقدمہ ہی غیر قانونی ہوجائے گا کیونکہ لیگل سینکشن کی عدم موجودگی میں ٹرائل چلائی گئی۔سنگین مقدمات میں ٹرائل چلانے کے لیئے اتھاریٹی سے خصوصی اجازت حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن اس مقدمہ میں ایسا نہیں ہوا۔ حکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ پی سی سریواستو (ایڈوکیٹ ایڈوکیٹ جنرل) اور ان کے معاونین ایڈوکیٹ جے کے اپادھیائے اور ایڈوکیٹ گورو پرتاپ سنگھ نے بحث کی اور عدالت سے نچلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھنے کی گذارش کی۔
واضح رہے کہ رامپور کی نچلی عدالت نے ایک جانب جہاں تین ملزمین کو ناکافی ثبوت و شواہد کی بنیاد پردہشت گردی کے الزامات سے بری کردیا تھا وہیں بقیہ پانچ ملزمین کو قصور وار ٹہرایا تھا اور انہیں پھانسی اور رعمر قید کی سزا دی تھی۔
نچلی عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا تھا کہ ملزمین محمد کوثر، گلاب خان اور فہیم انصاری کے خلاف ملک دشمن سرگرمیوں اوردہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات نہیں ملے ہیں لہذا انہیں باعزت بری کیا جاتا ہے۔ ملزمین کے مقدمات کی پیروی جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی نچلی عدالت سے کررہی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں