سنکٹ موچن مندر مقدمہ: سرکاری وکیل کی غیر حاضری کا ہائی کورٹ نے سخت نوٹس لیا
6/ مئی سے پھانسی کی تصدیق کے لئے داخل پٹیشن پر حتمی سماعت کئے جانے کا حکم
الہ آباد18/اپریل : اترد یش کے تاریخی و مذہبی شہر ورانسی میں واقع مشہور سنکٹ موچن مندر میں 2006میں ہوئے دہشت گردانہ واقعہ جس میں 28افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے تھے مقدمہ کے اکلوتے مجرم مفتی ولی اللہ کو نچلی عدالت سے ملنے والی پھانسی کی سزا کی تصدیق کی اپیل پر گذشتہ کل الہ آباد ہائی کورٹ میں سماعت عمل میں آئی جس کے دوران ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس اروندسنگھ سانگوان اور جسٹس منوہر نارائن مشرا نے ریاستی حکومت کے نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کی غیر موجودگی کا سخت نوٹس لیا اور کہا کہ مقدمہ کی اگلی سماعت یعنی کے 6/ مئی کو سینئر وکیل کی غیر موجودگی پر عدالت مقدمہ کی سماعت ملتوی نہیں کریگی۔ ریاستی حکومت کو مقدمہ کی اگلی سماعت سے قبل پھانسی کی سزا کی تصدیق کے لیئے داخل پٹیشن پر بحث کرنے کے لیئے وکیل کی تقرری کرنا ہوگا۔
ریاستی حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے دوران سماعت عدالت کوبتایا کہ مقدمہ کی سنگینی کے مد نظر ریاستی حکومت بحث کرنے کے لیئے سینئر وکیل کی خدمت حاصل کرنے کی کوشش کررہی لہذا عدالت مقدمہ کی سماعت ملتوی کرے۔ ہائی کورٹ نے مقدمہ کی سماعت ملتوی کرتو دی لیکن ریاستی حکومت کو سخت وارننگ دی کہ وہ مقدمہ کی اگلی سماعت سے قبل سینئر وکیل کی تقرری کرلے۔
دوران سماعت مفتی ولی اللہ کے دفاع میں بحث کرنے کے لیئے سینئر وکیل راجو لوچن، ایڈوکیٹ جیوتی بھوشن اور ایڈوکیٹ راج رگھونشی موجود تھے۔
دفاعی وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ مفتی ولی اللہ گذشتہ اٹھارہ سالوں سے جیل میں مقید ہے اوراس نے نچلی عدالت کے فیصلہ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے لیکن ریاستی حکومت کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کی غیر حاضری کی وجہ سے عرض گذار کی اپیل پر سماعت نہیں ہورہی ہے۔
خیال رہے کہ مفتی ولی اللہ کو جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) قانونی امدا د کمیٹی قانونی امداد فراہم کررہی ہے، ٹرائل کورٹ میں بھی ملزم کو قانونی امداد فراہم کی گئی تھی، ٹرائل کورٹ سے پھانسی کی سزا ملنے کے بعد ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے جس پر ہائی کورٹ سماعت کررہی ہے۔
اس مقدمہ کا پس منظر یہ ہیکہ 7مارچ 2006 سنکٹ موچن مندر میں شام چھ بجے بم دھماک ہوا تھا جبکہ دوسرا دھماکہ ورانسی ریلوے اسٹیشن پر ہوا تھا جبکہ ایف آئی آر کا اندراج بم دھماکوں کے دوسرے دن یعنی کے8/ مارچ کو پولس اسٹیشن لنکا میں سب انسپکٹر سمرجیت کی فریاد پر درج ہوا تھا۔
بم دھماکہ کرنے کے مبینہ الزامات کے تحت مفتی ولی وللہ کو 5/ اپریل 2006ء کو لکھنؤ سے گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر مندر میں بم دھماکہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے تعزیرات ہند کی دفعات 304,302,307,324 اور آتش گیر مادہ کے قانون کی دفعات 3,4,5 کے تحت دو مقدمات قائم کیئے گئے تھے۔ سال2011ء میں غازی آباد کی خصوصی عدالت نے دونوں مقدمات کو یکجہ کرکے مقدمہ کی سماعت کا آغاز کیا،دوران مقدمہ ملزم کے خلاف گواہ دینے کے لیئے استغاثہ نے 48/ گواہوں کو عدالت میں پیش کیا تھا۔6/ جون 2022 کو خصوصی سیشن عدالت نے ملزم کو پھانسی کی سزا سنائی تھی جس کے بعد نچلی عدالت کے فیصلہ کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھاجس پر گذشتہ کل سماعت عمل میں آئی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں