کولکاتہ برمن اغواء معاملہ
پندرہ سالوں سے عمر قید کی سزا کاٹ رہے ملزم کو ضمانت پر رہا کیئے جانے کا سپریم کورٹ کا حکم
جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی نے ملزم کو قانونی امداد فراہم کی
نئی دہلی 26/اپریل سپریم کورٹ آف انڈیا کی دو رکنی بینچ نے آج یہاں پندرہ سالوں سے زائد عرصے سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہریانہ کے ایک مسلم شخص کو بڑی راحت دیتے ہوئے اسے مشروط ضمانت پر رہا کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے۔ جسٹس اے ایس اوکا اور جسٹس اجول بھویا ن نے اختر حسین (ہریانہ) کی جانب سے داخل ضمانت عرضداشت پر آج سماعت کی ،جس کے دوران سینئر ایڈوکیٹ گورواگروال اور ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے عدالت کو بتایا کہ عرض گذار پندرہ سالوں سے زائد عرصے سےجیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید ہے نیز کولکاتہ ہائی کورٹ اس کی اپیلوں پر سماعت نہیں کررہی ہے، لہذا اسے ضمانت پررہا کیا جائے۔
ایڈوکیٹ گورو اگروال نے عدالت کو مزید بتایا کہ اس مقدمہ میں نچلی عدالت نے ملزم کو تا حیات عمر قید کی سزا سنائی ہے جبکہ نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف داخل اپیل گذشتہ پانچ سالوں سے کولکاتہ ہائی کورٹ میں التواء کا شکار ہے اور اس بات کی کوئی گیارنٹی نہیں ہے کہ اپیل پر کب سماعت ہوگی۔ا
یڈوکیٹ گورو اگروال نے عدالت کو مزید بتایاکہ ملزم کو محض شک کی بنیاد پر مجرم قراردیا گیا ہے اور انہیں پختہ یقین ہے کہ وہ ہائی کورٹ میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں کامیاب ہوگا لیکن ہائی کورٹ اپیلوں پر سماعت کرنے کے لیئے تیار نہیں ہے لہذا ملزم کو مشروط ضمانت پر رہا کیا جائے۔
ملزم اختر حسین کی ضمانت عرضداشت جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے توسط سے سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل کی گئی تھی جس پر آج سماعت عمل میں آئی۔اسی درمیان سرکاری وکیل نے عرض گذار کو ضمانت پر رہا کیئے جانے کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ ملزم پر ایک سے زائد مقدمات ہیں۔ گجرات مقدمہ میں ملزم کو دس سال کی سزا ہوچکی ہے نیز ملزم کو اگر ضمانت پرر ہا کیا گیا تو وہ فرار ہوسکتا ہے۔
فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد دو رکنی بینچ نے ملزم اختر حسین کو مشروط ضمانت پر رہا کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے۔
دوران سماعت عدالت نے تبصرہ کیا کہ کولکاتہ ہائی کورٹ اگلے دس سال تک ملزم کی اپیل پر سماعت نہیں کرسکتی ہے ،لہذا ملزم کو سخت شرائط کے ساتھ ضمانت پر رہا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے کولکاتہ سیشن عدالت کو حکم دیا کہ وہ ایک ہفتہ کے اندر ضمانت کی شرائط طے کرے ۔گذشتہ برس سپریم کورٹ آف انڈیا نے اسی مقدمہ کا سامنا کررہے دو ملزمین نور محمد عبدالمالک انصاری (ممبئی، مہاراشٹر) اور جلال ملا رشید ملا (مغربی پرگنہ، مغربی بنگال) کوضمانت پر رہا کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے تھے۔ جس کے بعد اختر حسین کی ضمانت عرضداشت سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل کی گئی تھی۔
مقدمہ کا پس منظر یہ ہے کہ ملزمین نے 23/جولائی 2001ء کو مغربی بنگال کے شہر کولکاتہ کی مشہور جوتے کی کمپنی کے مالک روئے برمن کو اغواء کرنے والے معاملے میں ملوث تھے، نیز اغواء سے حاصل ہونے والی رقم کو انہوں نے کولکاتہ امریکن سینٹر پر حملہ میں استعمال کیا تھا۔نچلی عدالت سے ملزمین کو عمر قید کی سزا ہوئی تھی ،جس کے بعد کولکاتہ ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی گئی، ایک جانب جہاں کولکاتہ ہائی کورٹ نے اپیل سماعت کے لیئے قبول کرلی ،وہیں ملزمین کی ضمانت عرضداشتیں مسترد کرد ی تھی۔
واضح رہے کہ اس مقدمہ میں پولس نے پہلے 22/ لوگوں کو گرفتار کیا تھا اور ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تھا جس میں سے 17/ ملزمین باعزت بری ہوئے تھے اور بقیہ پانچ ملزمین کو 21/ مئی 2009ء کوعمر قید کی سزا ہوئی تھی، لیکن مقدمہ ختم ہوجانے کے بعد پولس نے آٹھ دیگر ملزمین کو گرفتار کیا تھا اور ان کے خلاف تعزیزات ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا تھا ،جن کے خلاف 65/ سرکاری گواہوں نے گواہی دی جس، کے بعد علی پور جیل میں قائم خصوصی عدالت نے انہیں بھی عمر قید کی سزا سنا دی ،جس کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔
پندرہ سالوں سے عمر قید کی سزا کاٹ رہے ملزم کو ضمانت پر رہا کیئے جانے کا سپریم کورٹ کا حکم
جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی نے ملزم کو قانونی امداد فراہم کی
نئی دہلی 26/اپریل سپریم کورٹ آف انڈیا کی دو رکنی بینچ نے آج یہاں پندرہ سالوں سے زائد عرصے سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہریانہ کے ایک مسلم شخص کو بڑی راحت دیتے ہوئے اسے مشروط ضمانت پر رہا کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے۔ جسٹس اے ایس اوکا اور جسٹس اجول بھویا ن نے اختر حسین (ہریانہ) کی جانب سے داخل ضمانت عرضداشت پر آج سماعت کی ،جس کے دوران سینئر ایڈوکیٹ گورواگروال اور ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے عدالت کو بتایا کہ عرض گذار پندرہ سالوں سے زائد عرصے سےجیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید ہے نیز کولکاتہ ہائی کورٹ اس کی اپیلوں پر سماعت نہیں کررہی ہے، لہذا اسے ضمانت پررہا کیا جائے۔
ایڈوکیٹ گورو اگروال نے عدالت کو مزید بتایا کہ اس مقدمہ میں نچلی عدالت نے ملزم کو تا حیات عمر قید کی سزا سنائی ہے جبکہ نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف داخل اپیل گذشتہ پانچ سالوں سے کولکاتہ ہائی کورٹ میں التواء کا شکار ہے اور اس بات کی کوئی گیارنٹی نہیں ہے کہ اپیل پر کب سماعت ہوگی۔ا
یڈوکیٹ گورو اگروال نے عدالت کو مزید بتایاکہ ملزم کو محض شک کی بنیاد پر مجرم قراردیا گیا ہے اور انہیں پختہ یقین ہے کہ وہ ہائی کورٹ میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں کامیاب ہوگا لیکن ہائی کورٹ اپیلوں پر سماعت کرنے کے لیئے تیار نہیں ہے لہذا ملزم کو مشروط ضمانت پر رہا کیا جائے۔
ملزم اختر حسین کی ضمانت عرضداشت جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے توسط سے سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل کی گئی تھی جس پر آج سماعت عمل میں آئی۔اسی درمیان سرکاری وکیل نے عرض گذار کو ضمانت پر رہا کیئے جانے کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ ملزم پر ایک سے زائد مقدمات ہیں۔ گجرات مقدمہ میں ملزم کو دس سال کی سزا ہوچکی ہے نیز ملزم کو اگر ضمانت پرر ہا کیا گیا تو وہ فرار ہوسکتا ہے۔
فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد دو رکنی بینچ نے ملزم اختر حسین کو مشروط ضمانت پر رہا کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے۔
دوران سماعت عدالت نے تبصرہ کیا کہ کولکاتہ ہائی کورٹ اگلے دس سال تک ملزم کی اپیل پر سماعت نہیں کرسکتی ہے ،لہذا ملزم کو سخت شرائط کے ساتھ ضمانت پر رہا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے کولکاتہ سیشن عدالت کو حکم دیا کہ وہ ایک ہفتہ کے اندر ضمانت کی شرائط طے کرے ۔گذشتہ برس سپریم کورٹ آف انڈیا نے اسی مقدمہ کا سامنا کررہے دو ملزمین نور محمد عبدالمالک انصاری (ممبئی، مہاراشٹر) اور جلال ملا رشید ملا (مغربی پرگنہ، مغربی بنگال) کوضمانت پر رہا کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے تھے۔ جس کے بعد اختر حسین کی ضمانت عرضداشت سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل کی گئی تھی۔
مقدمہ کا پس منظر یہ ہے کہ ملزمین نے 23/جولائی 2001ء کو مغربی بنگال کے شہر کولکاتہ کی مشہور جوتے کی کمپنی کے مالک روئے برمن کو اغواء کرنے والے معاملے میں ملوث تھے، نیز اغواء سے حاصل ہونے والی رقم کو انہوں نے کولکاتہ امریکن سینٹر پر حملہ میں استعمال کیا تھا۔نچلی عدالت سے ملزمین کو عمر قید کی سزا ہوئی تھی ،جس کے بعد کولکاتہ ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی گئی، ایک جانب جہاں کولکاتہ ہائی کورٹ نے اپیل سماعت کے لیئے قبول کرلی ،وہیں ملزمین کی ضمانت عرضداشتیں مسترد کرد ی تھی۔
واضح رہے کہ اس مقدمہ میں پولس نے پہلے 22/ لوگوں کو گرفتار کیا تھا اور ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تھا جس میں سے 17/ ملزمین باعزت بری ہوئے تھے اور بقیہ پانچ ملزمین کو 21/ مئی 2009ء کوعمر قید کی سزا ہوئی تھی، لیکن مقدمہ ختم ہوجانے کے بعد پولس نے آٹھ دیگر ملزمین کو گرفتار کیا تھا اور ان کے خلاف تعزیزات ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا تھا ،جن کے خلاف 65/ سرکاری گواہوں نے گواہی دی جس، کے بعد علی پور جیل میں قائم خصوصی عدالت نے انہیں بھی عمر قید کی سزا سنا دی ،جس کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں