src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> یہ سوچ کہ صرف بیوی ہی گھر کا کام کرے، قدیم ذہنیت ہے شوہر کو گھریلو ذمہ داریاں بھی اٹھانی چاہئیں: بامبے ہائی کورٹ - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

بدھ، 13 ستمبر، 2023

یہ سوچ کہ صرف بیوی ہی گھر کا کام کرے، قدیم ذہنیت ہے شوہر کو گھریلو ذمہ داریاں بھی اٹھانی چاہئیں: بامبے ہائی کورٹ

 







یہ سوچ کہ صرف بیوی ہی گھر کا کام کرے، قدیم ذہنیت ہے شوہر کو گھریلو ذمہ داریاں بھی اٹھانی چاہئیں: بامبے ہائی کورٹ



ممبئی: بامبے ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ یہ سوچ کہ بیوی کو گھر کی تمام ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں، قدیم ذہنیت ہے۔ اس میں مثبت تبدیلی کی ضرورت ہے۔ جدید معاشرے میں گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ شوہر اور بیوی دونوں کو یکساں طور پر اٹھانا پڑتا ہے۔ عدالت نے بیوی پر ظلم کا الزام لگانے والے شوہر یہ مشورہ  دیتے ہوئے اس کے طلاق کے مطالبہ کو مسترد کر دیا ہے۔ بیوی کے وحشیانہ رویے سے تنگ آکر شوہر نے پونے کی فیملی کورٹ میں طلاق کی درخواست دائر کی تھی۔ مارچ 2018 میں فیملی کورٹ نے شوہر کا یہ مطالبہ مسترد کردیا تھا جس کے خلاف شوہر نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ شوہر نے بیوی پر یہ بھی الزام لگایا تھا کہ وہ دن بھر اپنی ماں سے فون پر بات کرتی ہے ۔ وہ گھر کا کوئی کام نہیں کرتی، اسے ناشتہ نہیں دیتی اور نہ ہی دفتر جاتے وقت اسے کھانا دیتی ہے۔ سمجھانے پر لڑائی کرتی ہے۔ ایک بار جب وہ اپنے سسر کے‌ گرہ پرویش پروگرام میں شرکت کرنے میں ناکام رہا تو اس کی بیوی کا اس کے ساتھ پرتشدد سلوک ہوگیا۔ اس کی ساس پرتشدد رویے پر اکساتی ہے۔ اب وہ اپنی بیوی سے صلح نہیں کر سکتا، کیونکہ دونوں 10 سال سے الگ رہ رہے ہیں۔ عدالت نے شوہر کے اس دعویٰ کو بھی مسترد کر دیا۔




جسٹس نتن سمبرے اور جسٹس شرمیلا دیشمکھ کی بنچ نے اس اپیل پر سماعت کی۔ بنچ نے کہا، 'شادی کے بعد عورت کو اپنے والدین سے مکمل طور پر الگ نہیں کیا جا سکتا۔ رشتہ ٹوٹنے کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ اسے اپنے والدین سے بات کرنے سے روکنا میںٹلی ٹارچر ہے۔ میاں بیوی کے جھگڑوں میں اکثر تیز اور سخت الفاظ کا استعمال عام ہے۔ اس لیے شوہر کی طرف سے لگائے گئے ظلم کے الزامات ثابت نہیں ہوتے۔ جب متاثرہ فریق (شوہر یا بیوی) کو اتنی ذہنی اور جسمانی تکلیف ہو کہ دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا مشکل ہو جائے تو صرف عدالت ہی ظلم کی بنیاد پر شادی ختم کر سکتی ہے۔ موجودہ معاملہ ایسا نہیں ہے۔ اس لیے شوہر کی اپیل مسترد کر دی جاتی ہے۔



اہلیہ نے تمام الزامات کی تردید کی تھی۔ ان کے مطابق دفتر سے آنے کے بعد ان سے گھر کے تمام کام کرنے کی توقع کی جاتی تھی۔ اس محنت کش جوڑے کی شادی 8 جولائی 2010 کو بہار میں ہوئی۔ اس کے بعد وہ دونوں پونے آگئے۔ تین سال بعد بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ اس کے بعد دونوں کے درمیان اختلافات مزید گہرے ہو گئے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages