بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
جب *حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ* نے *"بہر سیر"* نامی شہر کو فتح کر لیا اور اس میں پڑاؤ ڈال دیا۔ پھر مجاہدین نے کشتیاں تلاش کیں تا کہ وہ لوگ دریائے دجلہ پار کر کے دور والے شہر جاسکیں اور اسے فتح کر سکیں۔ لیکن انہیں کوئی کشتی نہ مل سکی کیونکہ ایرانی لوگ تمام کشتیاں سمیٹ کر وہاں لے جاچکے تھے ، چنانچہ مسلمان صفر مہینے کے کئی دن "بہر سیر" میں ٹھہرے رہے اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے سامنے اس بات کا اظہار کرتے رہے کہ (کشتیوں کے بغیر ہی) دریا پار کر لیا جائے ، لیکن شفقت کی وجہ سے وہ مسلمانوں کو ایسا نہیں کرنے دیتے تھے ، پھر وہاں کے کچھ عجمی کافروں نے آ کر انہیں دریا پار کرنے کیلئے وہ گھاٹ بتایا جو وادی کی سخت جگہ تک پہنچادیتا تھا لیکن حضرت سعد رضی اللہ عنہ تردد میں پڑ گئے اور اس گھاٹ سے گزر کر جانے سے انکار کر دیا، اتنے میں دریا کا پانی چڑھ گیا۔ پھر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا کہ دریا میں پانی بہت زیادہ چڑھا ہوا ہے لیکن مسلمانوں کے گھوڑے دریا میں گھسے ہیں اور پار ہو گئے ہیں۔ اس خواب کو دیکھ کر انہوں نے دریا پار کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا اور لوگوں کو جمع کر کے بیان کیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا:
*تمہارا دشمن اس دریا کی وجہ سے تم سے محفوظ ہو گیا ہے، تم لوگ ان تک نہیں پہنچ سکتے لیکن وہ لوگ جب چاہیں کشتیوں میں بیٹھ کر تم پر حملہ آور ہو سکتے ہیں، تمہارے پیچھے ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس سے تم پر حملہ کا خطرہ ہو، میں نے پکا ارادہ کر لیا ہے کہ دریا پار کر کے دشمن پر حملہ کیا جائے ۔“*
تمام مسلمانوں نے بیک زبان کہا " آپ ضرور ایسا کریں ، اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو ہدایت پر قائم رکھے۔“ پھر سعد رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو دریا پار کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا:
*آپ لوگوں میں سے کون اس بات کیلئے تیار ہے کہ پہل کرے اور دریا پار کر کے گھاٹ کے دوسرے کنارے پر قبضہ کرلے اور اس کنارے کی دشمن سے حفاظت کرے تا کہ دشمن مسلمانوں کو اس کنارے تک پہنچنے سے نہ روک سکے۔“*
اس پر حضرت عاصم بن عمرو رضی اللہ عنہ فوراً تیار ہو گئے اور ان کے بعد چھ سو بہادر آدمی بھی تیار ہو گئے ، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کو ان کا
امیر بنایا۔ حضرت عاصم رضی اللہ عنہ ان کو لے کر چلے پھر دجلہ کے کنارے کھڑے ہو کر اپنے ساتھیوں سے کہا
” آپ میں سے کون میرے ساتھ چلنے کو تیار ہے تا کہ گھاٹ کے پر لے کنارے کو دشمن سے محفوظ کر لیں۔ اس پر ان میں سے ساٹھ آدمی تیار ہو گئے، حضرت عاصم رضی اللہ عنہ نے ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا، آدھے لوگوں کو گھوڑوں پر آدھے لوگوں کو گھوڑیوں پر بٹھایا تا کہ گھوڑے کیلئے تیرنے میں آسانی رہے، پھر وہ لوگ دجلہ میں داخل ہو گئے ( اور دریا کو اللہ کی مدد سے پار کر لیا) جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ حضرت عاصم رضی اللہ عنہ نے گھاٹ کے دوسرے کنارے پر قبضہ کر کے اسے محفوظ کر لیا ہے تو انہوں نے تمام لوگوں کو دریا میں گھس جانے کا حکم دیا اور فرمایا " یہ دعا پڑھو: *وَنَسْتَعِينُ بِاللَّهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَحَسُبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ لا حَوْلَ وَلَاقُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ*
ہم اللہ سے مدد طلب کرتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں، اللہ ہمیں کافی ہے اور بہترین کارساز ہے۔ گناہوں سے بچنے کی قوت اور نیکی کرنے کی طاقت اللہ کی طرف سے ہی ہے جو بلند و برتری اور عظمت والا ہے۔“ لشکر کے اکثر لوگ ایک دوسرے کے پیچھے چلنے لگے اور گہرے پانی پر بھی چلتے رہے، حالانکہ دریائے دجلہ بہت جوش میں تھا اور بہت جھاگ پھینک رہا تھا اور ریت اور مٹی کی وجہ سے اس کا رنگ سیاہ ہو رہا تھا اور لوگوں کی دو دو کی جوڑیاں بنی ہوئی تھیں اور وہ دریا پار کرتے ہوئے آپس میں یوں باتیں کر رہے تھے جس طرح زمین پر چلتے ہوئے کیا کرتے تھے۔
ایران والے یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے کیونکہ اس کا انہیں وہم و گمان بھی نہیں تھا وہ لوگ گھبرا کر ایسے بھاگے کہ اپنا اکثر مال وہاں ہی چھوڑ گئے اور 16 ہجری صفر کے مہینہ میں مسلمان اس شہر میں داخل ہوئے اور کسری کے خزانوں میں جو تین ارب تھے ان پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا اور شیرویہ اور اس کے بعد کے بادشاہوں نے جو کچھ جمع کیا تھا اس پر بھی قبضہ ہو گیا۔
*دشت تو دشت ہیں صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے*
*بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے*
حياة الصحابة ( ۶۶۲/۳)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں