شہر عزیز مالیگاؤں کا مسلمان ۔۔۔ ایک لمحۂ قکریہ ۔۔۔ قنوت نازلہ کے ساتھ اب ہر محلے میں اصلاحی کمیٹیاں وقت کی اہم ترین ضرورت
✒️ اعجاز شاھین مالیگاؤں
درحقیقت مسلمان شخص وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے سارے مسلمان محفوظ رہیں ۔ ( الحدیث )
شہر عزیز مالیگاؤں میں مسلمانوں کی آبادی 95 فی صد ہوا کرتی تھی ۔ رحم دل ، شکر گزار ، مشفق ، ملنسار ،منصف ، ولی صفت مومنانہ کردار والے نیک سیرت مسلمان رہتے اور بستے تھے ۔ پنچایتی اور سرداری نظام سے لوگوں کے مسائل کو آسانی کے ساتھ حل کیا جاتا تھا ۔ بزرگوں اور سرپرستوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ لوگوں کے دلوں میں ان کے لئے ڈر اور خوف ہوا کرتا تھا ۔
مگر افسوس آج یہی شہر عزیز مالیگاؤں جو کہ آج بھی مسجد و مینار والا ضرور کہلاتا ہے مگر حقیقت بالکل برعکس ۔۔۔۔ ہر احساس رکھنے والے شخص کو شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے ۔
جب ہم آج کے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں ۔ تو آج کا مسلمان چاہے عالم ہو یا ان پڑھ اکثریت میں ہر کوئی ایک دوسرے پر جھوٹے الزامات لگا کر ، لعن طعن کر کے نیچا دکھانے کی کوشش کی کر رہا ہے ۔ جھوٹ فساد ، گالی گلوج بالکل بھی عام ہو چکا ہے ۔ حلال وحرام کی تمیز اب باقی نہیں رہی ۔ بزرگوں ، علمائے کرام کے علاوہ سرپرستوں کو بے عزت کرنا ، ان کی باتوں کو نظر انداز کرنا اب ایک فیشن بنتا دکھائی دے رہا ہے ۔ شریعت کی ہر طریقے سے دھجیاں اڑائی جا رہی ہے ۔ حالانکہ ہمارے اوپر ظالم وجابر حکمران مسلط ہیں ، بارش کا نفع بخش نہ ہونا بھی ایک لمحۂ قکریہ ہے ۔مگر افسوس ۔۔۔۔
ہمارے معاشرے میں تعلیمی لائن سے پڑھانے والے مسلمان ، پڑھنے والے مسلمان اس کے باوجود ہماری پرائمری اسکول زیادہ تر منشیات اور برائیوں کا اڈہ بنی ہوئی ہے ۔ تعلیمی فیس بڑھتی اور تعلیمی معیار گھٹتا ہی جا رہا ہے ۔ تعلیمی مافیا بھی مسلمان ہی ہیں ۔
اسکولوں میں مڈے میل کے نام سے ملنے والا گھٹیا قسم کا کھانا بھی کھانے والے مسلمان ، کھلانے والے مسلمان اور تو اور ٹھیکیداری کرنے والے بھی مسلمان ہی ہیں ۔
ہاسپٹل لائن سے مریض بھی مسلمان ، ڈاکٹر حضرات اور ان کی ساری ٹیم اکثریت مسلمان کی ۔ پھر بھی لوٹ کھسوٹ ، بے رحمی ، رشوت خوری ، بلا وجہ آپریشن کرنے پر مجبور کرنا اور جس ہاسپٹل سے دوا لکھی گئی ہے اسی کے میڈیکل میں ملے گی ورنہ دوسری طرف بہت مشکل ۔۔۔
سیاسی میدان میں لیڈران کی اکثریت مسلمان ہوتے ہوئے بھی ناکام و ناکارہ ، بد عنوان ، حرام و حلال میں تمیز نہ کرنے والے ، دنیاوی عیش و آرام میں مست دکھائی دے رہے ہیں ۔ جیسے آخرت میں حساب ہی نہیں دینا ہے ۔ عوام کی اکثریت بھی مسلمان لوگوں کو تکلیف دینے سے بالکل بھی باز نہیں آتی ۔ چاہیے اتی کرمن ، صاف صفائی ، لین دین کا ہی معاملہ کیوں نہ ہو ۔ آپسی بات چیت میں جھوٹ فساد ، گالی گلوج بالکل عام بات ہے جسے نہ ہی برا مانا جاتا ہے اور نہ ہی برا سمجھا جاتا ہے ۔ منشیات کا کاروبار کرنے والے مسلمان اور استعمال کرنے والے بھی اکثر مسلمان ۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں چوری چماری ، غنڈہ گردی ، بے حیائ وغیرہ عام ہو گئی ہے
ہمارے مسلم معاشرے کی اکثریت اتی کرمن ضرور کریں گے حالانکہ شریعت میں دوسروں کو تکلیف دینے سے منع اور راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور صاف صفائی بالکل بھی نہیں رکھیں گے جس کو رکھنے اور کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے ۔ بلکہ پاکی و صفائ رکھنا آدھا ایمان ہے
ان تمام مسائل کے حل کے لیے علمائے کرام ، ائمہ کرام اور سرکردہ شخصیات کو عملی میدان میں اترنا ہوگا
اور ہر محلے میں ایک مرتبہ پھر سے اصلاحی کمیٹیاں تشکیل دینا ضروری ہے تاکہ معاشرے میں پھیلی برائیوں پر ہمیشہ کے لئے روک لگ سکے ۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں