"ڈاکٹر امان اللہ شاہ". ایک عالم تھا نقوش تعلیم چھوڑ گیا۔۔۔۔
عقیل خان بیاولی جلگاؤں
بعد نماز عصر برادرم مشتاق بہشتی کا فون آیا خلاف معمول سیدھی آواز کان سے ٹکرائی کہاں ہو آپ؟ ڈاکٹر مندار پنڈت کے اسپتال پہنچوں دادا کی حالت نازک ہے بس ! اس کے بعد آگے کچھ نہ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے میں راستہ ہی میں تھا کچھ ہی منٹوں میں اسپتال پہنچ گیا وہاں کا غمگین ماحول دیکھ کر میں بھی خاموش اسی صف میں کھڑا ہو گیا جہاں ان کے اہل خانہ کھڑے تھے ابھی سنبھلنے ہی پاۓ تھے کہ خواتین کی درد بھری آوازیں سن کر دل دہل گیا اللہ خیر کا معاملہ کرے خواتین کو سمجھا بجھا کر کسی طرح بذریعہ گاڑیوں کے گھر روانہ کر دیا گیا موجود مرد حضرات اس روم کی طرف جانے لگے جہاں وہ داخل علاج تھے ماحول دیکھ کر میرے بھی قدم اسی طرف اپنے آپ بڑنے لگے اس امید سے آگے بڑھ رہے تھے کہ بآسانی دیدار کم از کم ہوجاۓ بعد کا جم غفیر موقع نہ دینگا اس سے پہلے کہ میں خود کو سنبھالےاندر داخل ہو پاتا ادھر سے سائیڈ سائیڈ کرتے لوگ اسٹریچر لے آۓ جیسے ہی اس اسٹریچر پر نگاہ پڑی اس چہرے کے ساتھ آنکھوں کے سامنے تین دہائیوں کی روداد تین سیکنڈ سے بھی کم وقفے میں آنکھوں کے سامنے گھوم گئی مجھے ان کی زیر نگرانی تین دہائیوں تک کام کرنے کا شرف حاصل ہے ایک مشفق دوست ،ایک باکمال، فعال، نشیط، متحرک، فروغ تعلیم کا خادم ،بے لوث کارکن، تعلیم کا بیش بہا و قیمتی سرمایہ، تعلیم کی نثر و اشاعت کو عبادت ماننے والی شخصیت داغ مفارقت دے اپنے مالک حقیقی سے جا ملی غم ہوا مگر ہمارا ایمان کامل ہے ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے مگر کچھ اموات تاریخ میں ایسی ہوئی ہیں جن کی تلافیِ مشکل ہے ان کی خلاء کو پر کرنا مشکل ہے انہیں میں سے ڈاکٹر امان اللہ شاہ بھی ہیں جنہیں میدان تعلیم میں دادا کے نام سے جانا جاتا ہے جنہیں شہر کی ہی نہیں تو ضلع کی تعلیمی نثات الثانیہ کا بانی ہونے کا شرف حاصل ہے مرحوم کا قائم کردہ تعلیمی ادارہ انجمن خدمت خلق 1979س ء جس کے قیام کا مقصد دختران ملت کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے انہیں خود کفیل بنانا اور ان کے میعار زندگی کو بلند کرنا اور انہیں مین اسٹریم میں لانا تھا مگر ٨٠س ء کی دہائی میں کون اس بات سے اتفاق کرتا کہ دختران ملت کو مین اسٹریم میں لانا ہے ہر کوئی اسے غیر ضروری تصور کرکے اس دیوانے کا مزاق اڑانے لگے نا تو معقول وسائل کی دستیابی نہ عوامی حمایت مگر اس دیوانگی نے ٹھان لی تھی کوشش جاری رہی کارواں بڑھتا گیا ہم خیال جوڑتے رہیں اللہ اللہ کرکے کسی طرح حکومت سے اسکول شروع کرنے کی اجازت مل گئی پھر اس سے بھی بڑا مسلہ آیا اسکول عمارت کا انتہائی سخت شرائط پر میونسپل اسکول میں کمرے ملے انتہائی کسم پرسی کی حالت میں اسکول قائم ہوئی تحریک کامیاب ہوئ متفقین بڑھنے لگے یہاں کی ترغیب نے حوصلہ دیا شہر میں قائم ادارے اقرأ ایجوکیشن سوسائٹی کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا اسی کے ساتھ ملت ایجوکیشن سوسائٹی کے قیام میں بھی نمایاں کردار رہا ان سب سے بڑھ کر شہر میں امینیہ ہوسٹل کا قیام 1975 میں کیا جس سے نہ صرف ضلع بلکہ بیرون ضلع کے بھی طلباء کی حصول علم کی راہیں ہموار ہوئی ایک عبقری شخصیت فکر و آگہی کی شاہراہ پر گامزن جس نے اپنی ساری زندگی خدمت تعلیم میں گزاری وہ بھی اپنی سرکاری اسپتال کی ملازمت سنبھالتے ہوۓ ہر گھڑی کچھ نیا کرنے کی فکر میں لگے رہتے ۔آج شہر عزیز کی حدود میں جو اضافہ ہوا ہے وہ علاقہ جو مہرون گرام پنچایت میں شمار ہوتا تھا اس میں ڈاکٹر علامہ اقبال کالونی کا قیام مرحوم نے ہی کیاتھا اس مقصد سے کہ مسلمانوں کا رہائشی میعار بلند ہو اس کے ساتھ ذاکر حسین سوسائٹی بھی قائم کی اور آج یہ مسلمانوں کی اکثریت والی گھنی بستیاں بن چکی ہیں دیہی علاقے کے بچوں کی تعلیمی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے قصبہ پالدھی میں 87-1986میں ہائی اسکول قائم کی۔اسی کے ساتھ اپنی معاشی،سماجی پسماندہ گداگری کرنے والی شاہ چھپپربند فقیر برادری کو گداگری کے پیشہ سے روکنے کے لئے انہیں تعلیم کی طرف مائل کرنے کے لئے برادری کے پلیٹ فارم سے شہر میں اسکول بھی قائم کی برادری کے حقوق کی حصول یابی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہیں آپ صفات خیر کے جامعہ تھے آخری وقت تک اس کے ریاستی صدر کے عہدے سے خدمات انجام دیں۔
اصول نظم و ضبط صوم و صلوٰۃ وقت کے پابند ملنسار کام کرنے اور کروا لینے کا ہنر جاننے والی انصاف پسند شخصیت غیر سیاسی شخصیت مگر سیاست دانوں پر اپنی چھاپ چھوڑنے والی اور عوامی مسائل حل کروا لینے والی شخصیت جو فروغ تعلیم کے کل وقتی وکیل و سفیر ہی نہیں تھے تو فروغ تعلیم کے طائر نو بہار بھی تھے فروغ تعلیم کے لئے ہر لمحہ فکر مند نظر آتے ان کا یقین تھا کہ ملت جو آج تعلیمی اعتبار سے پچھڑ گئ ہے ایک دن ضرور اپنے روشن ماضی کو پا لینگی انہی صفات و اعلیٰ خوبیوں کے سبب کئ آنکھیں پرنم و کئ چہرے اداس ہیں ۔ایک بڑا کنبہ جس میں بھائ بہنیں اولاد بھانجے بھتیجے پوتا پوتی نواسے نواسیاں اور سینکڑوں افراد ہیں ہم سب دعاگو ہیں کہ اللہ ان کے نیک اعمال کار خیر کو قبول فرمائے اور لواحقین کو صبر کی دولت سے مالا مال کرے اور ان کے تعاون سے قائم تعلیمی دینی سماجی فلاحی ادارے اسی طرح خدمات انجام دیتے رہے اللہ ان کا نعیم البدل بھی جلد عطا کرے آمین ثم آمین یارب العالمین ۔
غم گسار عقیل خان بیاولی
3اگست 2023 ۔
م
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں