روحِ جہاد کا خاتمہ
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
غالب مغربی تہذیب وثقافت کے غلاموں کے یہاں اسلامی جہاد صرف ان مواقع اور حالات میں مشروع ہے جب کہ حملہ آور دشمنوں کے مقابلے میں دار الاسلام یا خوداپنی ذات کے دفاع کی ضرورت پیش آجائے۔ ہمارے مفکرین روحِ جہاد، مغزِ جہاد، فلسفہ ٔ جہاد اور حقیقتِ جہاد کے عناوین سے دن رات یہی ثابت کرنے میں جُٹے ہوئے ہیں۔ ان کے مغربی آقا امریکہ اور یورپ چاہے کھلے عام اس اصول کو پامال کریں۔ وہ کسی بھی ملک کے خلاف یک طرفہ جنگ شروع کر دیں، اپنی بالادستی اور مفاد کے لیے پورے پورے خطوں کو تہ و بالا اور ملکوں کو عدمِ استحکام اور بحرانی صورتِ حال سے دوچار کر دیں، نیازمند مفکروں کی زبان سے تردید ومذمت کا ایک لفظ نہیں نکلے گا اور نہ اس موضوع پر ان کی کوئی تحریر وتقریر سامنے آئے گی۔ ان کا سارا زور صرف اس نقطے پر صرف ہوگا کہ مسلمان اقدامی جہاد کی خرابی اور برائی سے توبہ کرلیں، باقی ساری دنیا اقدامی جنگ کرتی ہے تو کرے۔
مغربی استادوں کے مسلم شاگردوں نے عادت کے مطابق جہاد کے سلسلے میں دورِ حاضر میں شاید سب سے زیادہ خامہ فرسائی کی ہے۔ لمبی جوڑی کتابوں میں اینچ پینچ کرکے کوشش کی گئی ہے کہ شرعی جہاد کے احکام کی تاویل وتوجیہ کرکے اسے غالب مغربی طرزِ فکر وعمل کے موافق بنا لیا جائے۔ چنانچہ سب سے زیادہ جس نکتے پر زور دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ جہاد پورے معنی میں دفاعی ہوتا ہے، اقدامی ہرگز نہیں ہوتا۔ اس جدید تصورِ جہاد کے صریحاً خلاف پڑنے والی قرآن وسنت کی نصوص اور اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کے جہادی کارنامے اور فتوحات، سب کی ایسی ایسی تاویلیں پیش کی گئی ہیں کہ پانچ سالہ بچہ بھی انہیں ماننے سے انکار کر دے۔ کچھ احمقوں نے کھل کر جہاد کا انکار کیا ہے اور کچھ نے اسے دفاعی جنگ کا نام دے کر عملاً منسوخ کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہندوستان میں سرسید احمد خاں نے انگریزوں کی کاسہ لیسی کرتے ہوئے سب سے پہلے جہاد کو دفاع عن النفس قرار دیاتھا۔ ان کے نزدیک مسلمانوں پر جہاد صرف اس صورت میں فرض ہوتا ہے کہ کفار ومشرکین ان پر ظلم ڈھائیں اور ان سے ان کا دین بدلوانا چاہیں۔ اگر اغیار واعداء کی جانب سے زیادتی کسی دوسری وجہ سے ہو، مثلاً وہ اسلامی ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہوں تو ان کے ساتھ جہاد کرنا جائز نہیں۔ دراصل سرسید برطانیہ عظمیٰ کے وفادار نمک خوار تھے۔ وہ چاہ کر بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ انگریزوں نے ہندوستان پر جو سامراجی قبضہ جما رکھا ہے وہ غاصبانہ اور ظالمانہ ہے اور مسلمانوں کو ان کے خلاف اٹھ کر جہاد کرنا چاہیے۔ (دیکھیں مقالات سرسیدسرسید, جلد ۱۳, مقالہ بہ عنوان جہاد کا قرآنی فلسفہ:ص۲۷۷- ۲۸۳)
سرسید کے علاوہ خاتمۂ جہاد کا بگل غلام قادیانی نے سب سے زیادہ زور و شور سے بجایابجایا تھا۔ اس کے بعد تقریباً ہر وہ مفکر جس نے مسلمانوں کو نظامِ باطل کے سائے میں چین کی بنسی بجاتے ہوئے زندگی گزارنے کا پاٹھ پڑھایا اس نے لامحالہ جہاد کی نفی کی یا تاویلوں کے پھندے میں پھانس کر اس شرعی ادارے کی جان نکالنا چاہی۔
عالمِ عرب میں انکارِ جہاد کی ابتداء شیخ علی عبدالرزاق نے کی۔ وہ لکھتے ہیں:’’اسلامی تاریخ میں جتنا کچھ جہاد ہوا ہے وہ دعوتِ دین پھیلانے اور لوگوں کو اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانے کی نیت اور غرض سے نہیں ہوا۔ یہ جہاد صرف اور صرف سلطنت کا رقبہ وسیع کرنے اور طبقۂ سلاطین کے شاہانہ تعیش وآرام کے لیے ہوا تھا۔‘‘(الاسلام واصول الحکم:ص۱۱۶)
معاصر دور میں جہاد کے سب سے بڑے مخالف مولانا وحید الدین خاں صاحب رہے ہیں۔ انھیں جہاد اور مجاہدین کے نام سے بھی الرجی اور کبیدگی ہے۔ وہ جہاد کو مغربی معنی میں خالصتاً دفاعی جنگ کہتے ہیں۔ انکارِ جہاد کے لیے تقریباً ان کی ہر تحریر اور کتاب وقف ہوتی ہے اور تیئیس سالہ سیرتِ نبوی میں انھیں سب سے زیادہ صلحِ حدیبیہ کا واقعہ یاد رہتا ہے اور اسی سے انھیں سچی محبت ہے۔ برما میں مسلمانوں کا کشت وخون ہو، فلسطین میں ان کا قتلِ عام ہو، چیچنیا اور بوسنیا کی سرزمین ان کی لاشوں سے پاٹ دی جائے،فرقہ وارانہ فسادات میں ان کے خون سے ہولی کھیلی جائے؛ الغرض دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جائیں مولانا محترم کو ہر جگہ غلطی صرف اور صرف ملتِ اسلامیہ کی نظر آتی ہے۔ اسلام کو بہ حیثیت نظامِ زندگی پیش کرنے والی ہر شخصیت یا تحریک جو -اگرچہ نظریاتی سطح پر ہی سہی- جہاد کو دین کا حصہ باور کرائے تو مولانا اس سے سخت برافروختہ ہوتے ہیں۔ اسی نسبت سے مرزا قادیانی کو مولانا محترم کے ممدوحین کی مختصر فہرست میں جگہ ملی ہوئی ہے۔
عصری اصطلاح کے مطابق دفاعی جنگ کا جو محدود تصور اور دائرہ تسلیم کیا گیا ہے، اسلامی جہاد کو اس تصور اور دائرے میں محصور کر دینے کی کوشش یقینی طور پر مغربی طاقتوں سے مرعوبیت اور مغلوبیت کی آئینہ دار ہے۔ آج دشمنانِ دین کی جانب سے علمی وفکری حملے سب سے زیادہ دینِ اسلام کے جن پہلوئوں پر ہورہے ہیں ان میں اسلامی جہاد پیش پیش ہے۔ پوری کوشش کی جارہی ہے کہ اسلامی تاریخ کو مسخ کر دیا جائے۔ جو لوگ اس فکری اور نفسیاتی حملے کی تاب نہیں لاپاتے وہ دھیرے دھیرے جہاد کا انکار کرنے لگ جاتے ہیں۔ مگر ایسی کوئی بھی فکری وعلمی کوشش دراصل اس دین کی فطرت اور طبیعت کو نہ سمجھ پانے کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح یہ موجودہ حالات کے سامنے سپر ڈال دینے، بالخصوص جہاد کے حوالے سے مستشرقین کی پھیلائی غلط فہمیوں اور ہرزہ سرائیوں سے متاثر ہوجانے کا شاخسانہ اور اظہار ہے۔ (معالم فی الطریق، سید قطبؒ:ص۸۸)
اسلامی جہاد کے اعلیٰ ترین مقاصد واغراض میں اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔ اللہ کا کلمہ اسی وقت بلند ہو سکتا ہے جب کہ باری تعالیٰ کی الوہیت اورربوبیت کا اعلان کیا جائے۔یقینا دعوتِ دین بھی جہاد کا ایک مقصد اور اس کی ایک شکل ہے،مگر جہاد صرف دعوت کے دائرے میں محصور نہیں اور نہ جہاد صرف دفاعی جنگ کا نام ہے۔جہاد تو غلبۂ حق کے لیے ہر سطح پر جدوجہد کرنے کا نام ہے جس کا ایک اظہار میدانِ جنگ میں حق کے لیے سردھڑ کی بازی لگادینا بھی ہے۔اللہ کے نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’جو شخص اس لیے جنگ کرتا ہے کہ اللہ کا کلمہ سب سے اونچا ہوجائے تو وہ اللہ کی راہ میں جنگ کر رہا ہے۔‘‘[من قاتل لتکون کلمۃ اللّٰہ ہی العلیا فہو فی سبیل اللّٰہ] (صحیح مسلمؒ:۱۹۰۴)
امتِ مسلمہ جہاد سے بالکلیہ دستبردار نہیں ہو سکتی کیونکہ بعثتِ محمدی کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ دنیا میں حق کا بول بالا ہوجائے اور جب تک یہ مقصد پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچتا، تب تک غلبۂ حق کے لیے کوشش کرتے رہنا ہر مخلص مسلمان کی ملّی اور منصبی ذمے داری ہے:{ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُون} (توبہ،۳۳۔صف،۹)’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجاتاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کر دے،خواہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘
تصورِ جہاد پر تجدد پسندوں کی خامہ فرسائی کے سلسلے میں لمبی چوڑی بحث کرنے کے بجائے ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ چلیے مان لیتے ہیں کہ آپ نے جہادِ اقدامی سے متعلق تمام صحیح حدیثوں کو -جو بلا مبالغہ سیکڑوں ہیں- جھوٹی کہہ کر مستردکر دیا، اور قرآنِ کریم میں وارد جہاد سے متعلق تمام آیتوں کی یہ تاویل کر دی کہ ان سے مراد صرف دفاعی جہاد ہے، تب بھی ہم اُن نصوصِ شرعیہ کا کیا کریں گے جن میں مجاہدین کو غازی،غزاۃ اور ان کے اقدام کو غزوہ کہا گیا ہے۔
جاہلی عربی ادب کے پرستاروں کی خدمت میں عرض ہے کہ کیا کسی ڈکشنری یا شعر میں ’’غزو‘‘ اور ’’غازی‘‘ سے مراد دفاعی جہاد کا مفہوم نکلتا ہے؟اس آیتِ کریمہ کا ہم کیا جواب دیں گے:{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ کَفَرُواْ وَقَالُواْ لإِخْوَانِہِمْ إِذَا ضَرَبُواْ فِیْ الأَرْضِ أَوْ کَانُواْ غُزًّی لَّوْ کَانُواْ عِندَنَا مَا مَاتُواْ وَمَا قُتِلُواْ}(آلِ عمران، ۱۵۶) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو،کافروں کی سی باتیں نہ کرو جن کے عزیز واقارب اگر کبھی سفر پر جاتے ہیں یا غزوے میں شریک ہوتے ہیں(اور وہاں کسی حادثے سے دوچار ہو جاتے ہیں) تو وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مارے جاتے اور نہ قتل ہوتے۔‘‘
یہ دیکھیے، قرآن کہہ رہا ہے کہ اہلِ ایمان جنگ کے لیے باہر نکلے ہوئے تھے،اپنے گھروں اور شہروں میں بیٹھ کر دفاع نہیں کر رہے تھے۔ اسی لیے تو منافقین نے کہا تھا کہ ’’لو کانوا عندنا‘‘ یعنی وہ یہیں گھروں میں بیٹھ رہتے تو بچ جاتے۔ ہم جہادِ غزوہ یا جہادِ اقدامی کو صریحاً بتانے والی اس آیت کی کیا تفسیر کریں گے؟
پھر صحیح بخاریؒ وصحیح مسلمؒ اور دیگر جملہ کتبِ حدیث میں وارد جہادِ غزو کی حدیثوں کا ہمارے پاس کیا جواب ہوگا؟
مثلاً صحیح بخاریؒ میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ جب ہمیں لے کر کسی قوم پر حملہ آور ہوتے تو صبح سے پہلے حملہ نہ کرتے تھے۔اگر صبح کے وقت اذان سنائی دیتی تو اس بستی پر حملے سے رک جاتے اور اگر اذان سنائی نہ دیتی تو حملہ کر دیتے۔ [أن النبیﷺ کان إذا غزا بنا قوما لم یکن یغزو بنا حتی یصبح وینظر فإن سمع أذانا کف عنہم وإن لم یسمع أذانا أغار علیہم] (صحیح بخاریؒ:۱۰) دیکھیے اس حدیث سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ صبح کے وقت کسی قوم پر حملہ کرتے تھے اور شنجون مارتے تھے۔ کیا اسے بھی دفاعی جہاد کہا جائے گا؟
صحیحین میں جہادِ غزو کی فضیلت اور غازی کو اسلحۂ جنگ فراہم کرنے کی جو فضیلت اور اجر وثواب بیان ہوا ہے وہ کثیر التعداد حدیثوں میں مذکور ہے۔اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ جو مرجائے اور کبھی جہادِ غزو میں شریک نہ ہو اور نہ اس کی تمنا کرے،وہ نفاق کی موت مرا۔[من مات ولم یغز ولم یحدث بہ نفسہ مات علی شعبۃ من نفاق](صحیح مسلمؒ:۱۹۱۰،عن ابی ہریرہؓ)
حضرت زیدؓ بن خالد روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا تھا:’’جو اللہ کے راستے میں کسی غازی کو سامان فراہم کرے تو گویا اس نے خود بھی جہاد کیا، اور جو اللہ کے راستے میں جانے والے کسی غازی کی خیر کے ساتھ (ا س کے بال بچوں کی نگہ داشت میں)نیابت کرے تو اس نے بھی جہاد کیا۔‘‘ [من جہز غازیا فی سبیل اللہ فقد غزا ومن خلف غازیا فی سبیل اللہ بخیرفقد غزا](صحیح بخاریؒ:۲۸۴۳۔سنن نسائیؒ:۳۱۸۰۔ سنن ابن ماجہؒ:۲۷۵۹)
بہت سی حدیثوں میں مغیبہ رشتے دار عورتوں کے یہاں جانے سے منع فرمایا گیا ہے۔ یعنی وہ عورتیں جن کے شوہر جہاد کے لیے باہر گئے ہوئے ہوں۔ [لا تلجوا علی المغیبات فإن الشیطان یجری من أحدکم مجری الدم] (سنن ترمذیؒ:۱۱۷۲ ،عن جابرؓ)سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جہاد اقدامی تھا ہی نہیں تو مدنی سماج میں ایسی عورتوں کا وجود کیوں تھا؟ مدینے کے لوگ مکہ والوں کی طرح تجارت پیشہ بھی نہیں تھے کہ آپ زبردستی تاویل کرکے ان سب کو تجارتی سفر پر روانہ فرما دیں؟
یہ جہادِ غزو یا اقدامی جہاد ہی تھا، جو بعض لوگوں کو نہیں کرنا ہے اور دم کٹی لومڑی کی طرح دنیا بھر میں کسی اور کو کرنے بھی نہیں دینا ہے۔
پھر ذرا سورۂ توبہ کی اس آیت پر بھی غور کریں:{وَلاَ عَلَی الَّذِیْنَ إِذَا مَا أَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لاَ أَجِدُ مَا أَحْمِلُکُمْ عَلَیْْہِ تَوَلَّواْ وَّأَعْیُنُہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَناً أَلاَّ یَجِدُواْ مَا یُنفِقُون}(توبہ،۹۲)’’اسی طرح ان لوگوں پر بھی کوئی اعتراض کا موقع نہیں ہے جنہوں نے خود آکر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کر سکتا تو وہ مجبوراً واپس گئے اور حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ وہ اپنے خرچ پر شریکِ جہاد ہونے کی مقدرت نہیں رکھتے۔‘‘
کیا اللہ کے رسولﷺ نے لمبے لمبے سفر کرکے دفاعی جہاد کیا تھا؟ زادِ سفر اور سواری نہ ہونے کی وجہ سے کچھ صحابۂ کرامؓ جنگ میں شرکت سے معذور تھے۔ کیا گھر بیٹھے دفاعی جہاد میں بھی زاد وراحلہ کا توڑا پڑ سکتا ہے؟ یا پھر یہ جہادِ اقدامی تھا جس میں مجرد اس خبر پر کہ رومیوں نے جنگی تیاریاں شروع کر دی ہیں، مومنوں نے آگے بڑھ کر جنگ کرنے کی ٹھانی تھی۔ یاد رہے کہ یہ آیتِ کریمہ بہ اتفاقِ مفسرین غزوۂ تبوک کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔
چلیے ان تمام فرمودات کو نظر انداز کیجئے۔آپ فرماتے ہیں کہ جہاد دفاعی ہوتا ہے، طلبی نہیں ہوتا۔ مگر قرآن کا کیا کریں گے کہ اس نے خود ہی اقدامی ودفاعی جہاد کی تقسیم فرمادی ہے۔ ارشادِ باری ہے:{وَقِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْاْ قَاتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ أَوِ ادْفَعُواْ}(آلِ عمران، ۱۶۷) ’’وہ منافق کہ جب ان سے کہا گیا آئو اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا از کم از دفاع ہی کرو۔‘‘ اگر دفاع کرنا ہی اصلاً جہاد ہے تو یہاں قتال کو الگ اور دفاع کو الگ کہنا کیا معنی رکھتا ہے؟
اگر دفاعی جہاد کے مفہوم پر آپ غور کریں جو یہ ہے کہ اپنے اوپر حملہ کرنے والے سے اپنے آپ کو بچایا جائے، تویہ ایسا مفہوم ہے کہ مغربی تہذیب وثقافت نظریے کی حد تک اسے تسلیم کرتی ہے کیونکہ وہ تمام تر ایک مادی دنیاوی تہذیب ہے۔ جب کہ جہادِ طلب واقدام کی حیثیت اور اہمیت کے بارے میں صرف وہی لوگ جانتے اور سمجھتے ہیں جو بااصول ہوں اور اپنے اصولوں کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہ کرنے والے ہوں۔ علامہ ابن القیمؒ نے کتنی قیمتی بات کہی ہے کہ ’’جہادِ دفاع تو ہر ایک شخص کر سکتا ہے۔ صرف بزدل اور لائقِ مذمت شخص ہی شرعاً یا عقلاً اس سے گریز کرنا چاہے گا۔ رہا جہادِ طلب جو خالصتاً اللہ کی خاطر کیا جاتا ہے تو اسے اہلِ ایمان کے سرگروہ اور سابقین وسادات ہی کرسکتے ہیں۔‘‘ [فجہاد الدفع یقصدہ کل أحد ولا یرغب عنہ إلا الجبان المذموم شرعا وعقلا وجہاد الطلب الخالص للہ یقصدہ سادات المؤمنین] (الفروسیۃ، ابن القیم، تحقیق: زائد النشیری:ص۱۲۴)
ماضی میں ہم مسلمان اس محرومی کا غم کھاتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں شرعی جہاد میں شرکت کا شرف نہیں بخشا جسے سچے اہلِ ایمان جہاں تہاں دنیا میں کررہے ہیں اور جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ ، صحابۂ کرامؓ اور ان کے بعد ان کے متبعین نے کیا ہے۔ مگر ہمیں اللہ سے عفو وکرم کی امید رہتی تھی کیونکہ اس نے ہمارے لیے ایک آخری گنجائش چھوڑ رکھی تھی جو اس محرومی میں ہمارا سہارا اور مداوا بن جاتی تھی۔ وہ چھوٹ اور گنجائش یہ تھی کہ ہم دل میں شہادت کی تمنا اور جہاد کا شوق پالتے تھے اور ربِ کریم کے تعلق سے یہ حسنِ ظن رکھتے تھے کہ ہماری اس نیت اور شوق کی وجہ سے وہ ہمیں نفاق کی موت سے محفوظ فرمائے گا اور اجرِ شہادت سے نوازے گا، جیسا کہ صحیح مسلمؒ میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت میں یہ ارشادِ نبوی نقل ہوا ہے کہ ’’جو مر جائے اور اس نے جہاد نہ کیا اور نہ دل سے اس بارے میں گفتگو کی تو وہ نفاق کے ایک حصے پر مرا۔‘‘ [من مات ولم یغز ولم یحدث بہ نفسہ مات علی شعبۃ من نفاق] (صحیح مسلمؒ:۱۹۱۰)
مگر اب یہ ہماری شقاوت اور بدبختی ہی ہے کہ ہماری صفوں سے ہی ایسے نام نہاد مفکرین اور بکاؤ مجتہدین دمادم پیدا ہورہے ہیں جو اللہ کے ساتھ ہمارے اس آخری تعلق کو بھی کاٹ دینا چاہتے ہیں اور اپنی کالی زبان سے کہہ رہے ہیں کہ ’’بے وقوفو، دل میں اقدامی جنگ یا جہادِ غزو کا خیال لانا بھی گناہ ہے،اس سے بچو، کیونکہ اسلام میں طلبی واقدامی جہاد سرے سے ہے ہی نہیں، یہ تو سب ان مولوی ملائوں کی پھیلائی ہوئی کھکیڑ ہے۔‘‘
یہ تمنا اللہ کے ساتھ ہمارا آخری قلبی رابطہ ہے جس سے یہ لوگ ہمیں محروم کردینا چاہتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ اب نہ ہم عملاً جہاد کریں اور نہ دل میں جہاد کرنے کا خیال یا امنگ لائیں۔
اے اللہ، نفاق کی اس گھٹاٹوپ تاریکی میں تو ہی ہمارے حال پر رحم فرما۔ اف یہ زمانہ اور ہائے اس میں اسلام کی غربت واجنبیت کا نظارہ۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
یہ بات اہم نہیں ہے کہ ہم آج جہادِ غزو، جہادِ طلب یا جہادِ فتح کے دینی شعار پر عمل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ جہادِ طلب کی انجام دہی کے لیے جس تیاری اور نظمِ جماعت اور ریاستی پشت پناہی کی ضرورت ہے وہ آج ہمارے ملک میں نہیں ہے۔ عملاً ہم بھی ان ضمیر فروش مفکرین کی مانند ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہیں۔ ہم بھی جانتے ہیں کہ شریعت کے جملہ احکام پر لاگو ہونے والا اصول کہ انسان شریعت پر عمل کا اپنی استطاعت کے بہ قدر مکلف ہے، یہ اصول کارِ جہاد پر بھی جاری ہوگا۔ ہم بھی جہاد سے دور ہیں اور ہمارے مفکرین بھی جہاد سے دور ہیں۔ فرق کیا رہا؟
فرق یہ ہے اور اس میں کوتاہی اور سہل کوشی پر اللہ ہمیں معاف نہیں فرمائے گا کہ ہم دجل وتحریف اور ایمان فروشی کے مقابلے میں شرعی تصورات ومفاہیم کی حفاظت کر رہے ہیں، حتی المقدور حد تک شریعت کو نظریاتی سطح پر خالص اور بے آمیز رکھنے میں لگے ہوئے ہیں۔ آج فکرِ جدید کے نام سے دین میں تحریف کا جو وسیع وعریض دروازہ مغرب کے اندھے پجاریوں نے کھول رکھا ہے، اس کے آگے سینہ سپر ہیں۔ مغرب کے سیاسی دبائو میں آج مسلم ملکوں کی حکومتیں بھی اُن فکری اور دعوتی رجحانات کو بڑھاوا دے رہی ہیں جو امریکی و اسرائیلی اثر ونفوذ کے مطالبات سے ہم آہنگ ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم اللہ کے دبائو کے آگے کسی کا دبائو نہیں مانتے، اور اسی ایک کارکردگی پر مغفرت کی آس لگائے ہوئے ہیں۔
آج جو لوگ کہتے ہیں کہ قیامت تک کے لیے جہاد ختم ہوگیا ہے، ان بے ضمیروں اور دیوثوں کے مقابلے میں ہمیں اپنے رسول ﷺ کی بات پر زیادہ بھروسا اور زیادہ یقین ہے کہ تا وقوع قیامت جہاد باقی رہے گا۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے بڑھ کر سچا کون ہو سکتا ہے؟
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں