ہمارے یہاں شادی کو ایک سزا بنا دیا گیا ہے یا پھر کاروبار۔ وہ کیسے ؟
آئیں سمجھتے ہیں۔
بیٹی نے پیپرز دئیے نمبر بہت کم آئے یا فیل ہو گئی تو چلو اس کی شادی کر دو ۔۔۔
کسی کے ساتھ محبت کے تعلقات میں پکڑی گئی تو چلو شادی کر دو۔۔۔
لڑکا نشئی ہے، شادی کر دو بیوی بچے ہوں گے تو عقل ٹھکانے آئے گی۔۔۔۔
بیٹا زندگی میں سنجیدہ نہیں ہے تو چلو شادی کر دو زمہ داری پڑے گی تو صحیح ہو جائے گا ۔۔۔
کیا شادی کرنا اس لیے تھا کہ سزا کے طور پر زندگی کے سب سے حسین رشتے کی بنیاد ڈالی جائے ؟
جب کوئی عمل ہمیں سزا کے طور پر کرنے کے لیے کروایا جاتا ہے تو کیا دل میں اس کی عزت، محبت اور قبولیت ہوتی ہے ؟
ہر گز نہیں بلکہ بوجھ لگتا ہے وہ عمل۔
تو جب شادی، کسی عمل میں ناکام ہونے کہ نتیجے میں کروائی جائے تو کیا ایسا لڑکا یا لڑکی شادی کے اصل مقاصد اور اہداف کو حاصل کر سکیں گے ؟
کیا وہ زوجین ایک دوسرے کے لیے لباس اور سکون بن سکیں گے ؟
ہز گز نہیں۔۔۔ بلکہ وہ شادی ان کے لیے کسی عذاب سے کم نہ ہوگی۔
یہ طریقہ ہمارے معاشرے میں زہنی ٹارچر کا ایک انداز بن گیا یے۔
پھر یہ جو شادی کی عمر نکال کر ڈگری پیسہ اور کیریئر کے پیچھے بھگانے کا رواج ہے اور بڑھاپے سے چند مہینے پہلے شادی کرنے کا رواج ہے، یہ آپ کو کاروبار نہیں لگتا کیا ؟
کیوں کہ دونوں جانب سے ڈگری اور پیشے کے حساب سے بول لگوائے جاتے ہیں پھر شادی میں پیسے کی نمائش ثواب سمجھ کر کی جاتی ہے۔
اسلام میں نکاح کی اہمیت کیا ہے، اس کے مقاصد کیا ہیں ان باتوں کو نظر انداز کر کے ہمارے بزرگ نکاح کی اپنی تعریف بنا بیٹھے ہیں۔ نتیجے میں آج نکاح کو لے کر عجیب انتشار برپا ہے کوئی نکاح کو بچپن کی شادی سے ملا رہا تو کوئی نکاح کرنے پر اس لیے راضی نہیں کہ اسے ڈگری لینی ہے۔
جب کہ دین نے تو نکاح کو سکون کا باعث بنایا ہے۔ نکاح، نکمے ہونے کی صورت میں نہیں رکھا بلکہ نکاح ہر عاقل بالغ کی ضرورت بنایا گیا۔ کہا گیا کہ جلد سے جلد کرو تاکہ فتنہ سے بچو۔ جس معاشرے میں نکاح جیسے عظیم، پاکیزہ اور محبت میں باندھ دینے والے شرعی حکم کے ساتھ ایسا کھلواڑ کیا جائے تو اس معاشرے میں خاندانی نظام کیسے چل سکتا ہے ؟ وہ خاندانی نظام جو دین اسلام نے ہمیں دیا تھا جہاں بچوں کی پرورش اور تربیت دینی اصولوں کے مطابق کی جاتی تھی۔
یہ صرف اس نسل کا قصور نہیں زرا پیچھے پلیٹیں تو اس سے پہلے والی نسل کی غلطیاں ان سے بڑھ کر نظر آئیں گی۔
جن کو نکاح کا مقصد ہی سمجھ نہ آیا وہ کہاں سے اپنی اولاد کا نکاح صحیح وقت پر اسی مقصد کے لیے کریں گے کہ جس کے لیے دین اسلام نے نکاح کو اہم ترین عمل بنایا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بیٹا یا بیٹی کی دینی تعلیم و تربیت کی جاتی اور بلوغت کے بعد انہیں نکاح کی اہمیت کا احساس دلایا جاتا تاکہ وہ نکاح کو اسلامی نقطئہ نظر سے دیکھتے اور سب سے بڑھ کر بلوغت کے بعد ان کے لیے مناسب رشتے کا انتظام کیا جاتا۔۔۔۔
جس میں ان کی پسند کو بھی شامل کیا جاتا۔ تاکہ نکاح کا بندھن نوجوانوں کو بوجھ یا سزا معلوم نہ ہوتا بلکہ وہ اپنی نوجوانی میں ہی اس پاکیزہ رشتے سے سکون حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اسلامی خاندانی نظام کی بنیاد رکھتے۔ پڑھتے جاتے، کماتے جاتے اور اپنے خاندان کے لیے بہتر انداز میں اپنا اپنا رول جو دین نے ڈیفائن کیا تھا ادا کرتے جاتے۔ پھر نکاح خالصتاً اسی مقصد کے لیے ہوتا کہ جس کے لیے دین نے مخصوص کیا۔
نکاح تو ایک ریوارڈ کی صورت ہونا چاہیے تھا کہ یہ اللہ کی طرف سے تمھارا چھپا ہوا خزانہ ہے جاؤ اب اس خزانے سے نا صرف نفع اٹھاؤ بلکہ اس کی حفاظت کے ساتھ ساتھ، اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اسے استعمال میں لاؤ۔ یعنی نفع میں خوشی مل جاتی، حفاظت میں زمہ داریاں اور فرائض آجاتے اور اللہ کی رضا میں وہ احکام کے جن پر عمل کر کے زوجین جنت تک ساتھ جا سکتے۔
نکاح کو تو خوشی کا باعث ہونا چاہیے، یہ کسی کے لیے سزا نہ ہو یا کہیں کاروبار نہ لگے۔جب نکاح سزا یا کاروبار بن جائے تو اس سے وہ نتائج نہیں مل سکتے جو دین چاہتا ہے۔ ایسے نکاح بے حسی، خود غرضی اور صرف دنیاوی کامیابی کے اغراض و مقاصد کو حاصل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اس لیے اپنی اولاد کا نکاح ان کی رضا مندی کو شامل کرتے ہوئے مناسب وقت پر کر دیں، مناسب وقت وہ ہی جس کی تعلیم دین اسلام نے ہمیں دی ہے، نکاح کا اصل مقصد وہ ہی ہے جو دین نے طے کیا یعنی سکون، نصف دین کی تکمیل، پاکیزگی، نئی نسل کی آمد کا سلسلہ اور پھر اس نسل کی تربیت دین کے اصول کے مطابق کرنا اور اسلامی خاندانی نظام کو مظبوط کرنا۔
نکاح کو آسان اور بامقصد ہی رہنے دیں۔ اسلامی معاشرے کی بنیاد کو کھوکھلا نہ کریں۔ دینی احکامات کا اصل مقصد سمجھیں تاکہ باخوشی اور فخر سے دینی احکامات کو بجا لا سکیں۔
وما علینا الاالبلاغ ۔
فیض عالم ✍️
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں