دعاٸیں کیوں قبول نہیں ہوتیں؟
قاری مختار احمد ملی ابن عبدالعزیز جامعتہ الصالحین فارمیسی نگر مالیگاٶں
رسول اللہﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم ضرور (اپنے لوگوں کو) اچھاٸی کا حکم دوگے اور براٸی سے روکو گے ورنہ قریب ہے کہ اللہ تمہارے اوپر اپنے پاس سے عذاب بھیج دے پھر تم اللہ کو پکارو مگر وہ تمہاری پکار کو نہ سنے۔مذکورہ حدیث میں اچھی باتوں کا حکم اور بری باتوں سے روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔لیکن آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم براٸیوں سے صرف نظر کٸے رہتے ہیں جہاں براٸی سے روکنا ہمارے بس میں ہے وہاں بھی چپ رہتے ہیں ہر شعبہ زندگی میں ظلم وزیادتی کا بازار گرم ہے لیکن کوٸی ان کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا سماجی اور عاٸلی زندگی میں بھی یہی طریقہ راٸج ہے ساس بہو کےمساٸل،میاں بیوی کے مساٸل،جواٸنٹ فیمیلی کے مساٸل، کارخانہ دار اور مزدوروں کے مساٸل،مساجد ومدارس کے اندرونی مساٸل ہر شعبہ زندگی میں فساد اور ظلم وزیادتی جاری ہے حکومت اگر ظلم وزیادتی کرتی ہے تو ہر طرف ان کے خلاف احتجاج ہوتا ہے لیکن مسلمانوں نے خود اپنے ماتحتوں پر ظلم وزیادتی حلال کررکھا ہے اس پر کوٸی آواز بلند نہیں کرتا ایسی بے شمار براٸیاں ہیں جن کو ہم دیکھتے ہیں لیکن مصلحت کا شکار ہوکر اپنے منہ پر پٹی لگالیتے ہیں جب یہ کیفیت پیدا ہوجاٸے تو نہ صرف یہ کہ خدا کی نصرت ختم ہوجاتی ہے بلکہ مذکورہ حدیث کے مطابق تمام لوگ عمومی عذاب میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور دوسرا نقصان یہ کہ دعاٸیں کرنے کے باوجود دعاٸیں قبول نہیں ہوگی۔آج مسلمانوں کی بے بسی اور مظلومیت کی جو کیفیت ہے ایسی کیفیت شاید کسی زمانہ میں نہیں رہی ہوگی۔کروڑوں اربوں کی تعداد کے باوجود ان کی حیثیت پانی کے جھاگ کی طرح ہے۔مذکورہ حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب آدمی اچھی باتوں کو نہ پھیلاٸے اور بری باتوں سے لوگوں کو نہ روکے تو پھر خدا کا عمومی عذاب آٸے گا اور خدا کے عذاب کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی دوسری قوموں کو مسلمانوں پر چڑھا دیتا ہے جو ان پر مختلف طریقہ سے مظالم ڈھاتے رہتے ہیں مسلمان ان کے خلاف چینخ چینخ کر بددعاٸیں کرتے ہیں لیکن ان کی بددعاٸیں رد کردی جاتی ہیں یہ بات آپﷺ نے مذکورہ حدیث میں قسم کھاکر فرماٸی ہے۔آج پوری دنیا کے مسلمانوں کے جو حالات ہیں وہ مذکورہ حدیث کے عین مطابق ہیں اس سے نکلنے کا راستہ وہی ہے جو حدیث میں ہمیں حکم دیاگیا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں