src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

بدھ، 5 جولائی، 2023

 



مسلم سیاسی لیڈران۔اور اسلام  کی غلط نمائندگی۔


سیاست دین سے الگ نہیں ہے۔بلکہ دین کا حصہ ہے۔ اگر دیندار لوگ میدان سیاست میں قدم رکھیں گے تو وہ اسلام کی صحیح نمائندگی اور صحیح تصویر پیش کریں گے۔ اور اگر دنیادار دین سے ناواقف لوگ میدان سیاست میں آگے بڑھیں گے۔ تو وہ ناواقفیت اور دین کا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے اسلام کی غلط نمائندگی کریں گے۔۔اورکررہے ہیں*

اس کی چند مثالیں یہاں پیش کررہا ہوں۔آپ کو بھی پڑھ کر اندازہ ہوگا‌کہ کس طرح سیاسی لوگ اسلام کی غلط نمائندگی کررہے ہیں‌۔*

*ہمارے علاقے میں ایک سرپنچ صاحب نے پولس اسٹیشن میں آکر کہاکہ اسلام میں گاے کی قربانی جائز ہی نہیں ہے۔ قرآن کریم میں۔ جو لفظ استعمال ہواہے۔ وہ‌۔۔ بقرۃ۔۔ ہے۔ اور۔۔ بقرۃ۔۔کے معنی گائے نہیں۔بلکہ بکرا۔ہے


پچھلے دنوں بمبی میں جمعیتہ علماء کا ایک وفد مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ  ایکناتھ شندے صاحب سے میٹنگ کیلئے حاضرہواتھا۔ اسمیں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ میٹنگ ہال میں داخل ہوئے تو ایک صاحب اعلی سیاسی قائدین کے سامنے کہہ رہے تھے کہ جن جانوروں پر قانونی پابندی ہے۔ ان جانوروں کی قربانی کرنے سے اللہ کے یہاں قربانی قبول ہی نہیں ہوتی۔

*ایک سیاسی لیڈر نے دوران تقریر کہاکہ دین دو طرح کا ہے۔ ایک قرآن وحدیث والا دین ہے۔ اور ایک مولانا لوگوں کا دین ہے۔ دین میں جو سہولت ہے اس کا فائدہ صرف علماء کرام اٹھارہے ہیں۔ مولانا لوگ فائدہ والی باتیں لوگوں کو بتاہی نہیں رہے۔آج ہندوستان کا مسلمان اگر ترقی نہیں کر رہا ہے تو اس کی وجہ اسلام نہیں علماء کرام ہے*

*مہاراشٹر جس وقت لاؤڈ سپیکر کا مسئلہ اٹھایا گیا تھا۔اس دوران ایک نگر سیوک سے ملاقات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ جب نمازوں کا وقت متعین ہے۔ اور سب لوگوں کو معلوم ہے کہ نماز وقت کیاہے تو پھر اذان کی کیا ضرورت ہے۔ بغیر اذان کے بھی ہمارا کام چل سکتاہے

ایک مسلم نگر سیوک صاحب نے مجھے اپنے آفس پر مدعو کیا میں چلاگیا۔ ہندو مسلم بھائی چارہ پر بات ہوئی۔ انھوں نے مجھ سے کہاکہ میں ایک مورچہ نکالنے جارہاہوں اور وہ ایسا مورچہ رہے گا کہ پورے ملک میں ایسا مورچہ ابھی تک کسی نے نہیں نکالا۔ میں نے کہا بتاؤ وہ مورچہ کیسا ہوگا تو کہاکہ ایک مسجد کے سامنے سارے ہندومسلم کو بلانا ہے۔تمام مسلمانوں کے ہاتھ میں بھگوا جھنڈا دیناہے۔اور مسلمان جے شری رام کے نعرہ لگاے گا۔ اسی طرح تمام غیر مسلم بھائیوں کے ہاتھ میں ہرا جھنڈا دیناہے اور وہ نعرہ تکبیر بولیں گے۔ اس طرح مسجد کے سامنے مورچہ نکل کر فلاں مندر تک جاے گا‌۔اور راشٹر گیت پر مورچہ ختم ہوگا۔۔ان کے یہ باتیں سننے کے بعد میں نے ان کی ذہن سازی کی اور ان کو شعائر اسلام وشعائر کفر کے متعلق سمجھایا تو ان کے بات سمجھ میں آئی*

*یہ تو چند واقعات ہیں۔ ایسے کئی واقعات دن بدن سیاسی لیڈران کی طرف سے ہورہے ہیں۔ ہمارا اکثر پڑھا لکھا طبقہ اور سیاسی لوگوں کا بڑا حلقہ یکساں سول کی حمایت میں کھڑاہے۔اورذہنی طور پر تیار ہیں کہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ ہونا چاہیے۔ وہ سمجھ رہاہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کی بھلائی سامان ناگرک قاعدے میں ہی ہے۔*

حضرات علماء کرام کو ان چیزوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اگر ان لوگوں کو لگام نہ لگائی گئی۔ اور ان کی باتوں کو نظر انداز کیاگیا تو ایک دن یہ دین کا بیڑہ غارت کریں گے

اللہ تعالیٰ عافیت نصیب فرمائے

عبدالرزاق ملی پیٹھن

ضلع اورنگ آباد

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages