"یکساں سول کوڈ پر ہے ہمارا اعتراض"۔ جلگاؤں میں ہوئی کڑی مخالف.
١٣جولائی تک کثیر تعداد میں اعتراض درج کرنے کی اپیل ۔۔
جلگاؤں ( عقیل خان بیاولی) مرکزی حکومت کے زیر غور مجوزہ یکساں سول کوڈ کے خد و خال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس میں موجود بہت ساری چیزوں سے شرعی قوانین کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے جو شرعیہ کے مخالف ہیں ان بنیادوں پر ہم مسلمانوں کو مزہبی نقطۂ نظر سے یہ پری طرح نامنظور ہے اسی کے ساتھ یہ کسی بھی طرح سے ملک کے لئے سودمندبھی نہیں ہے کیونکہ یہاں کئ مزاہب و روایات کے ماننے والے رہتے بستے ہیں اور یہی اس ملک کا ورثہ ہے ان روایات و ورثہ کو ختم کرنا اور ایک ہی قانون کا اطلاق لادنا یہ قومی پالیسی ،امن و امان کے نقطۂ نظر سے بھی درست نہیں اگر ایک ہی قانون لادنے کی کوشش کی گئی تو اس سے ملک کی سالمیت یکجہتی امن و امان کے قیام کا بھی خطرہ لاحق ہو سکتاہے کسی بھی فرقے جماعت یا مزہب کے ماننے والوں کے پرنسل لا کو پامال نہیں ہونے دیا جائے گا ایک اسی اعتماد پر حکومت نے کئ باغی جماعتوں کو قومی دھارے میں سمویا ہے جماعتوں فرقوں مزاہب کے اصول و نظریات کو نظر انداز کرنا درست نہیں ہے یہی تو دستور ہند کی خوبی و خوبصورتی ہے۔ ان بنیادوں پر یکساں سول کوڈ پر عمل آوری نہ کی جائے گا مطالبہ بہ روز جمعہ شہر کی مختلف تنظیموں کی جانب سے قانون کمیشن کے صدرکو جلگاؤں ضلع کلیکٹر کی معرفت بذریعہ میمورنڈم کیا گیا۔
اس موقع پر ضلع کی تمام سیاسی سماجی تعلیمی فلاحی تنظیموں ، ڈاکٹرس،وکلاء،بالخصوص خواتین چھوٹے ادارے،ذاتی کاروباری ،اپنا تحریری احتجاج ١٣جولائ تک بذریعہ ای میل یا ڈاک سے ضرور بہ ضرور درج کریں۔ تحریری احتجاج درج کرنے کا نمونہ فارمیٹ جلگاؤں ضلع منیار برادری کے دفتر،رتھ چوک جلگاؤں،مسلم عید گاہ ٹرسٹ کے دفتر اجنتا چوک جلگاؤں،کے ساتھ شہر کی تمام مساجد و دینی مدارس میں دستیاب ہے کثیر تعداد میں احتجاج درج کرنے کڑی مخالف و یکجہتی کا پیغام دینے کی اپیل فاروق شیخ نے کی۔ اس موقع پر کل جماعتی تنظیم کے سید چاند،وحدت اسلامی کے عتیق احمد،ااین سی پی کے مظہر پٹھان،سلیم انعامدار, کانگریس کے بابا دیشمکھ,امجد پٹھان ،ایم آئ ایم کے خالد کھاٹک،سعید شیخ، شیوسینا کے ذاکر پٹھان عید گاہ ٹرسٹ کے انیس شاہ،صیقلگر فاؤنڈیشن کے انور خان،حسینی سینا کے فیروز شیخ،بیلدار برادری کے نور خان، نوری فاؤنڈیشن کے ناظم پینٹر،امداد فاؤنڈیشن کے متین پٹیل،بی وائ ایف کے شیبان احمد،دانش کھاٹک وغیرہ موجود تھے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں