src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> مظہر الحق۔ تحریک آزادی کا فراموش کردہ کردار ۔۔۔۔۔ایک جائزہ - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

جمعہ، 2 جون، 2023

مظہر الحق۔ تحریک آزادی کا فراموش کردہ کردار ۔۔۔۔۔ایک جائزہ

 



مظہر الحق۔ تحریک آزادی کا فراموش کردہ کردار ۔۔۔۔۔ایک جائزہ 


جب کوئی  مصنف پہلی بار کوئی کتاب لکھتا ہے تو چا ہتا ہے کہ اس کتاب کو ایک ایک صاحب ذوق انسان نہ صرف یہ کہ پڑھ لے بلکہ ایک ایک کی طرف سے اسے داد بھی مل جائے اور اگر وہ صاحب تصنیف کوئی نوجوان ہے یا نئی نسل سے تعلق رکھتا ہے تو اس کی یہ خواہش اور بھی شدید ہو جاتی ہے۔وہ بے دریغ اپنی کتاب کی کاپیاں تقسیم کرتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اس کی ادبی یا علمی کوش پہنچ جائے اور اسے پتا چل سکے کہ اہل, علم اور صاحب, ذوق کی نظر میں وہ کتاب کیسی ہے؟ اس میں کیا خوبیاں ہیں اور کیا کمیاں ہیں ؟ آس نے کتنی محنت کی ہے ؟ اور کیسے کیسے نکات دریافت کیے ہیں؟ اس کی تسلی اس طرح کے ریمارکس سے نہیں ہوتی کہ واہ واہ ! کر دی جائے یا کیا کہنے! ماشاءاللہ! خوب ، تعجب خیز ،قابل, داد وغیرہ جیسے الفاظ فیس بک پر لکھ دیے جائیں! یا فون پر بول دیے جائیں 

   مگر اس کی تسلی اور تشفی والے جملے تو تب  پڑھنے کو ملیں گے جب کتاب پڑھی گئ ہو اور وہ بھی خلوص اور سنجیدگی سے کتاب کی ورق گردانی کی گئی ہو۔ کتب بینی کی صورت حال تو یہ ہے کہ اول تو بہت دنوں تک کتابوں والی ڈاک کھلتی ہی نہیں ہے اور اگر کھلتی بھی ہے تو وہ کتاب تو کسی حد تک توجہ پا لیتی ہے جس کے سر ورق پر کسی دوست یا شناسا یا کسی بہت بڑے ادیب کا نام درج ہوتا ہے اور اگر نام کوئی اجنبی ہوتا ہے تو اس کے شروع کے اوراق بھی نہیں کھلتے ۔ مگر اسی صورت حال میں کچھ ایسے بک لور  بھی ہیں جو کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھتے ضرور ہیں اور اگر کتاب کی تحریر معنی خیز اور موثر ہوتی ہے تو اسے وہ سنجیدگی اور دلچسپی سے آخر تک پڑھ جاتے ہیں اور اپنی رائے بھی لکھ دیتے ہیں۔ میں دعویٰ تو نہیں کرتا کہ میں بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوں مگر یہ بات سچ ہے کہ نہاں رباب کی کتاب ڈاکیہ کے ہاتھ سے میرے ہاتھوں میں آتے ہی کھلی۔ ورق الٹے پلٹے گئے اور کتاب کے موضوع اور اسلوب نے مجھے پڑھنے پر بھی مجبور کیا اور کتاب کے خاتمے تک آتے آتے دل نے اس پر کچھ لکھنے کے لیے بھی مجھے تیار کر لیا۔ میں اس لیے بھی لکھنا چاہتا ہوں کہ اس کتاب کی مصنفہ رسرچ اسکالر ہیں اور پہلی بار انھوں نے کوئی کتاب لکھی ہے ۔تاکہ اس کتاب کی مصنفہ محترمہ نہاں رباب کو پتا چلے کہ میری نگاہ میں یہ کتاب کیسی ہے اور اس کے مواد و موضوع اور پیش کش کی کیا قدر وقیمت ہے؟ اور انھوں نے اس کتاب کی تیاری میں کتنی محنت کی ہے ۔

  اس کتاب کے چھ ابواب قائم کیے گئے ہیں:

1- مظہرالحق

2-, مظہرالحق کی شخصیت کے اوصاف و امتیازات

3- مظہر الحق کی علمی و سیاسی خدمات

4- تحریک, آزادی ہند اور مظہرالحق

5- تحریک, آزادی ہند میں مظہرالحق کے ہم عصر قائدین

6- مظہرالحق کی سیاسی سرگرمیوں سے سبکدوشی:  اسباب و عوامل

    کتاب کے یہ ابواب بتاتے ہیں کہ اس کتاب میں مجاہد, آزادی مولانا مظہر الحق کی کے سوانحی کوائف، شخصیت اور ان کی سرگرمیوں کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے اور ان پر دلائل کے ساتھ منطقی بحث  بھی کی گئی ہے ۔ مولانا کی شخصیت والے باب میں جو ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں اور ان کی روشنی میں مولانا کی شخصیت کے جو نمایاں پہلو ابھارے گئے ہیں اور جس طرح ان پہلوؤں سے مولانا کے کارناموں کو منطقی انداز میں جوڑا گیا ہے وہ واقعی قابل,داد ہے اور اس تجزیے سے قلم کارہ نہاں رباب کی ذہنی بالیدگی اور ان کی ناقدانہ استعداد کا پتا چلتا ہے ۔اوراس بات کا اشارہ بھی کہ جب کسی کام میں جی لگایا جاتا ہے اور خون, جگر صرف کیا جاتا ہے تو اس کام کے ثمر کا رنگ چوکھا ضرور ہوتا ہے ۔

     پانچویں باب میں جنگ آزادی کے تمام اہم قائدین اور خصوصاً ان سیاست دانوں اور آزادی کے متوالوں جن کا تعلق بہار سے تھا کی بنیادی کارگزاریوں کو سمیٹا گیا ہے ۔

  کتاب کا آخری باب بہت دل دوز اور پرسوز ہے کہ اس میں ان واقعات و حالات کا ذکر ہے جن کے باعث مولانا مظہر الحق کو ملک کی سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہونا پڑا ۔اور وہ شخص جو ہمیشہ میدان کارزارِ میں رہا اور وہ بھی اگلی صف میں اسے تنہائی کی زندگی گزارنی پڑی ۔

    اس کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ مصنفہ نے نہایت اختصار کے ساتھ مولانا مظہر الحق کی تمام جہتوں کو سمیٹ لیا ہے اور ان کے کارناموں اور قربانیوں کی روشنی میں ان کے قد کو اس طرح پیش کیا ہے کہ

مولانا کی وہ حیثیت جو وقت کی گرد میں دب کر رہ گئی تھی روشن ہو کر سامنے آ گئی ہے ۔ پوری کتاب پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ ہم  اپنے ملک کے ایک سچے ہیرو سے مل کر آ رہے ہیں اور ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمیں آزادی کا سکھ دینے کے لیے ہمارے بزرگوں نے کتنی اور کیسی کیسی تکلیفیں اٹھائی ہیں۔

  یہ کتاب اس اعتبار سے بھی اہم اور کارآمد ہے کہ یہ نئی نسل کو ہندوستان کے ایک سچے دیش بھکت اور جاں نثار, قوم مولانا مظہر الحق کی ہمہ جہت اور ڈائنمک شخصیت سے متعارف کرائے گی اور ان کے دلوں میں بھی جذبہء حُب الوطنی بیدار کرنے میں معاون ثابت ہو گی۔

   نہاں رباب نے زبان بھی صاف ستھری ، سادہ اور رواں دواں استعمال کی ہے ۔پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنفہ نے کتاب کے نہاں خانے میں رباب کے تار چھیڑ دیے ہوں۔

  نہاں رباب اس لیے بھی قابل, قدر اور لائق, تحسین ہیں کہ

ان کی یہ کتاب پی۔ایم  ہوا میںٹورشپ اسکیم کے تحت سیکڑوں مسودوں میں سے منتخب ہونے والے ان چار مسودوں میں سے ایک ہے جنھیں ہندوستانی کتابوں کے سب سے بڑے ادارے نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا نے شائع کی

اور اس کتاب پر مصنفہ کو حکومت,ہند کی طرف سے

تین لاکھ روپے بھی عطا کیے گئے ۔

   ایک عمدہ کارآمد اور اہم کتاب کے لیے نوجوان ادیبہ محترمہ نہاں رباب کو ڈھیروں  دلی داد و مبارک باد۔

    امید ہے یہ کتاب قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی اور نوجوان مصنفہ کی بھر پور حوصلہ افزائی کی جائے گی ۔

                            پروفیسر غضنفر

                   سابق ڈائریکٹر ،اردو اکادمی ،برائے اساتذہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی

7678436704

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages