صد حیف! میر کارواں جاتا رہا
از : حافظ مسعود احمد حسامین
نائب صدر جمعیۃ علماء مہاراشٹر
مورخہ 20 جون 2023 بروز منگل علی الصبح مخدومِ گرامی جناب گلزار احمد اعظمی صاحب ( سیکریٹری قانونی امداد کمیٹی) کی زبانی بذریعہ فون یہ روح فرسا خبر موصول ہوئی کہ فخر مہاراشٹر، عالم نبیل، حضرت اقدس مولانا مستقیم احسن صاحب اعظمی (صدر جمعیۃ علماء مہاراشٹر ) انتقال فرما گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
خبر سنتے ہی سکتہ طاری ہوگیا اور ایک عجیب کیفیت ہو گئی، نگاہوں کے سامنے مولانا کا نورانی چہرہ آگیا، اور ماضی کی یادیں بن کر مولانا مرحوم کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات یاد آنے لگے۔ اس دنیا میں آنے والے، جانے کے لیے ہی آئے ہیں۔ نہ کوئی جانے والے کو روک سکا ، نہ ہی چندلمحوں کے لئے ہی سہی یہ سفر موقوف کرنے پر آمادہ کر سکا ۔پیغمبروں نے کوچ کیا، ولیوں نے رخصت اختیار کی، علماء نے رختِ سفر باندھا، ہر ذی روح اپنے اصل ٹھکانےکی طرف لوٹ رہا ہے۔بس باری کا انتظار ہے۔جس کے کاغذات پر مہر لگ گئی وہ عازمِ سفر ہوا ۔
یوں تو ہر آدمی کی جدائی اس کے متعلقین اور اعزہ واقارب کے لیے سوہانِ روح ہے، مگر بعض انسان ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بہت سی مجلسیں سونی ہوجاتی ہیں ۔علم وفکر کے بہت سے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔بیعت وارشاد کے ایوانوں میں طویل مدت کے لیے سناٹا چھا جاتا ہے۔
حضرت مولانا مستقیم احسن اعظمی ؒ کی وفات سے یہی سب کچھ ہوا۔انکی کمی اور غیر موجودگی کو شدت کیساتھ محسوس کیا جارہا ہے اور کیا جاتا رہے گا ۔ بلاشبہ مولانا مرحوم ایک باوقار ممتاز ومعروف عالم دین، ملت اسلامیہ کے بےلوث خادم، ادیبِ باکمال، ایک قادر الکلام خطیب، عظیم داعی، بلند پایہ مفکر، اور متنوع محاسن وفضائل کا مجموعہ تھے۔معاملہ فہمی، مردم شناسی،دور اندیشی وسعت ظرفی جیسے اور بے شمار اوصاف آپ کی ذات میں جمع تھے
مولانا مرحوم سے میرا قلبی تعلق جمعیۃعلماء سے وابستگی سے قبل اس وقت ہوا جب جمعیۃ علماء کا ایک بڑا وفد علاقہ ودربھ کے دورے پر تھا۔ جس میں مولانا مرحوم، حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی (مہتمم دارالعلوم دیوبند) حضرت مفتی عبد الباسط صاحب بنارسی، حضرت مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلیؒؒ،حضرت مولانا امین صاحب اور ان کے ساتھ دیگر رفقاء تھے۔
ناگپور میں ہونے والے تاریخی اجلاس کے ناظم مولانا مرحوم تھے۔دورانِ نظامت انداز انتہائی معیاری اور مؤثر تھا ۔الفاظوں کی ترتیب، جملوں کی بندش اور اندازِ تکلم نے مجھے مولانا مرحوم سے قریب کردیا ۔دورانِ نظامت مالیگاؤں سے آنے والی خبر استرجاع کہ حضرت مولانا عبد
القادرصاحب ؒ رحلت فرماگئے۔اس خبر پر جو تعزیتی کلمات مولانا مرحوم نے کہے اسے سنکر جو لگاؤ اور تعلق مولانا مرحوم سے ہوا وہ تاحیات قائم رہا۔
مولانا مرحوم انتہائی مشفق،مہربان اور رحم دل تھے۔اسی شفقت اور محبت کا نتیجہ تھا کہ مولانا راقم الحروف کو اپنے تینوں بیٹوں کی طرح چوتھا فرزند سمجھتے تھے۔ مخلصانہ مشورہ دیتے،مکمل رہنمائی اور رہبری فرماتے۔جمعیت علماء ناگپور کی ترقی کے لیے جامع ہدایات دیتے۔
ناگپورآمد پر ہمیشہ کہتے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنوں کے درمیان میں ہوں۔نیزاحباب و ارکان جمعیۃ آپ کی آمد کے منتظر رہتے۔ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور ان تقاضوں کو صحیح طور پر سمجھ کر قدم آگے بڑھانا بیداری، شعور اور دور اندیشی کی علامت ہے۔
نامناسب مواقع اور حالات میں ملت کی ترجمانی خصوصا صوبہ مہاراشٹر کی فلاح وترقی کے لئے کار آمد، متحرک اور فعال افراد کو تلاش کرکے ان سے کام لینا اور ملت کے مسائل کو حل کرنے کی ہرممکن کوشش کرنا یہ مولانا مرحوم کی امتیازی شان تھی۔
راقم الحروف کے لیے یہ حادثہ صرف انکے خانوادے کا تنہا صدمہ نہیں ہے بلکہ سنگین ترین ذاتی وشخصی حادثے کی نوعیت رکھتا ہے۔ احقر اپنی طرف سے اور جملہ اراکین جمعیت علماء ناگپور کی طرف سے تمام پسمانندگان کی خدمت میں تعزیتِ مسنونہ پیش کرتا ہے ۔ اور بہ صمیم قلب دعا گو ہے کہ اللہ پاک مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ سید النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں