رشتے کیوں نہیں ہوتے؟؟
آج کل والدین کی سب سے بڑی پریشانی جو ہے وہ یہ ہے کہ بچوں کے مناسب جگہ پر رشتے نہیں ہوتے اب یہ مناسب جگہ کون سی ہے یہ ھم اس پوسٹ میں جاننے کی کوشش کریں گے ان شاءاللہ تعالیٰ۔
میرا تعلق لاہور کی ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے تعلیمی اور مذہبی گھرانے سے تعلق ہے ھماری فیملی میں مکمل اللہ پر توکل کرکے رشتہ کر دیا جاتا ہے میرے والد صاحب کی جب شادی ہوئی تو وہ بے روزگار تھے میری والدہ بیاہ کر آئیں تو ایک سال کے بعد والد صاحب کی جاب لگی میری منگنی بھی جس سے ہوئی وہ بھی ابھی جاب کی تلاش میں ہے میرے والدین شادی کے لیے زور لگا رہے ہیں مگر لڑکے کے والدین پہلے اسکی جاب کے حق میں ہیں میرے والد صاحب کہتے ہیں جو میری بیٹی کے نصیب کا ہے وہ مل کر رہے گا شادی بھی سادگی سے مسجد میں کرنے کا کہا صرف نکاح اور اس کے بعد سادہ سا ولیمہ کوئی بھی کسی بھی قسم کو فضول رسم کرنے کے میرے والد صاحب حامی نہیں حالانکہ میں ان کی اکلوتی بیٹی ہوں جبکہ لڑکے والے شادی دھوم دھڑکے سے کرنا چاہ رہے ہیں کیونکہ یہ انکی فیملی میں پہلی شادی ہے یہ سب بتانے کا مقصد لڑکے میں میرے والد صاحب نے صرف دین داری دیکھی پانچ وقت کا نمازی ہونا دیکھا اس کے علاؤہ کچھ بھی نہیں۔نہ ذات نہ سٹیس نہ جاب نہ گھر بار۔
مجھے رشتے کرواتے کے متعلق بہت زیادہ تجربہ تو نہیں صرف فیس بک پر فضول وقت ضائع کرنے سے کسی کے لیے آسانیاں پیدا کرنا مناسب لگا اسی لیے مختلف شادی گروپس جوائن کیے یہ اونرز کا مجھ پر بھرپور اعتماد اور اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہے کہ جتنے بھی گروپس جوائن کیے ان سب کی ایڈمن بھی ہوں گو کہ اس میں میرا کچھ کمال نہیں مگر لگن ضرور ہے کہ میں ہر ممکن حد تک دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کروں ۔
میں نے اپنے مختصر سے تجربے کے دوران جو بات شدت سے محسوس کی ہے وہ ہے لالچ رشتہ کرتے وقت زیادہ تر لوگ تقریباً نوے فی صد لوگ خواہ وہ لڑکی والے ہوں یا لڑکے والے دونوں ایک دوسرے کے مال پر نظر رکھتے ہیں جاب کو ترجیح دیتے ہیں بنک بیلنس کو نظر میں رکھتے ہیں گھر زمین سماجی سٹیس کو بیٹی یا بیٹے کی خوشحالی تصور کرتے ہیں دوسری صورت میں یا آسان الفاظ میں اگر بیان کیا جاۓ تو خود کو فرعون یا زمینی خدا سمجھتے ہوۓ بیٹے یا بیٹی کی تقدیر یا نصیب خود لکھنے کی کوشش کرتے ہیں اس وقت یہ سب بھول جاتے کہ کاتب تقدیر تو ان کے نصیب لکھ چکا ہے شادی پر ہندوانہ رسم و رواج کا پرچار کیا جاتا ہے جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں وگ پڑھائی دودھ پلائی کرسی جوتا چھپائی تیل مہندی مایوں گود بھرائی چاول پھنکوائی یہ سب مکمل طور پر ہندوانہ رسم و رواج ہیں تین چار دن بھارتی گانوں پر اپنی ہی ماؤں بیٹیوں بہنوں کے شریفانہ مجرے کرواۓ جاتے ہیں اور مرد اپنی ہی بہن بیٹی بیوی ماں کو غیر مردوں کے سامنے ٹھمکے لگاتے دیکھ کر داد ذلالت بھرپور طریقے سے وصول کرتے ہیں اس کے بعد جب شیطان خوب راضی ہو جاتا ہے تو لڑکی کے سر پر قرآن مجید رکھ کر رخصت کر دیا جاتا ہے کوئی ایک بھی رسم سواۓ نکاح کے قرآن مجید کے احکامات کے مطابق نہیں کی جاتی اور امید کی جاتی ہے کہ قرآن پاک کی برکت سے ھماری بیٹی خوش رہے گی یہ اللہ تعالیٰ کو سخت ناراض کرنے کا باعث بن سکتا ہے اور اکثر اس کے نتائج طلاق کی صورت میں ھم سب دیکھتے ہیں یعنی نہ تو ھم رشتہ کرتے وقت دین کو ترجیح دیتے ہیں اور نہ شادی کرتے وقت رشتہ کرتے اور شادی کرتے وقت ھم صرف ہندوانہ رسم و رواج کو ترجیح دیتے ہیں ہندو معاشرے میں آپ دیکھ سکتے ہیں دلہے بکتے ہیں ہندوستان میں باقاعدہ ایک بازار لگتا ہے جس میں لڑکوں کی بحیثیت دولہا نیلامی ہوتی ہے بالکل اسی طرح یہاں پاکستان میں بھی لوگ اپنی بیٹی کر دولہے خریدتے ہیں ماں کو کڑے بہنوں کو سیٹ بھائیوں کو جوتی کپڑے وغیرہ دے کر کیونکہ یہ شادی نہیں بزنس ہوتا ہے اور بزنس کبھی کامیاب ہوتا ہے اور کبھی ناکام۔
باقی جو دس فی صد لوگ ہیں وہ ذات پات مسلک کے چکروں سے نہیں نکلتے بہت سے اہلحدیث لڑکے لڑکیوں کے رشتے اس لیے نہیں ہو پا رہے کہ وہ غیر مسلک میں رشتہ کرنا ہی نہیں چاہتے بہت سے بریلوی مسلک اہل حدیث یا دیو بندیوں سے بھاگتے ہیں لوگ ایک دوسرے کو مسلمان تک نہیں مانتے اسی طرح راجپوتوں کی کوشش ہوتی ہے راجپوت ہی ہو گجروں کی کوشش گجر ہی ہوں جٹ چاہتے ہیں اپنی برادری ہو آرائیں بھی اپنے دائرے سے باہر نہیں نکلنا چاہتے مگر جہاں پیسہ ہو وہاں یہ کمپرومائز کر جاتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر پیسے کو نعوذ باللہ ترجیح دیتے ہیں اور یہ منافقت پاکستان بھر میں 99فی صد پائی جاتی ہے اگر آپ کے پاس وافر مقدار میں پیسہ ہے تو آپ کسی بھی زات برادری میں آسانی سے شادی کر سکتے ہیں لیکن اگر آپ دین دار ہیں متقی پرہیز گار ہیں مگر پیسہ نہیں تو آپ کو صبر کرنا ہوگا شہوت کو ختم کرنے کے لیے روزے رکھنے ہونگے کیونکہ آپ کو رشتہ آسانی سے نہیں ملے گا
اسلام میں ایسے مرد و عورت سے شادی کرنے کو ترجیح دی گئی ہے جو دین دار ہو اللہ اور رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر مکمل عمل کرتا ہو باکردار اور باشرع ہو مگر انتہائی افسوس کے ساتھ جو دینی لوگ ہیں وہ بھی دین کو ترجیح نہیں دیتے آج تک آپ نے کبھی ایسا نہیں پڑھا یا سنا ہوگا کہ لڑکا نیک ہو پانچ وقت کی نماز ادا کرتا ہو باکردار ہو بلکہ سب کے زبان پر کچھ ایسا جملے ہوں گے لڑکا اچھی جاب والا ہو گھر بار اپنا ہو مختصر فیملی ہو ھم لوگ اللہ پر توکل بالکل بھی نہیں کرتے ھماری پوری کوشش ہوتی ہے ہر لحاظ سے ھم منافع کا سودے کریں گھاٹے کا سودا ھمیں منظور نہیں جبکہ حقیقت میں منافع کا سودا صرف وہ ہی ہے جس میں اللہ اور اسکے رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا شامل ہو اور میرے اللہ اور نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اسی میں ہے کہ نکاح آسان ہو سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم خرچ ہو جب اللہ تعالٰی اور نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح کو انتہائی آسان کر دیا ہے تو ھم اور آپ کون ہوتے ہیں نکاح کو مشکل بنانے والے اور اگر ھم نکاح کو مشکل بنائیں گے تو ھماری دنیا و آخرت دونوں خراب ہو جائیں گے ۔
آئیے مل کر عہد کیجئے ھم نکاح کو ایک تحریک کی شکل میں آسان بنائیں گے انفرادی اور اجتماعی کوشش سے ہر ممکن حد تک اپنے لیے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے رشتہ لیتے یا دیتے وقت صرف دین و تقویٰ کو ترجیح دیں گے کہ ھماری دنیا و آخرت میں کامیابی کا سبب بنے گا ان شاءاللہ تعالیٰ
تحریر۔۔ علیشباہ اعوان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں