تسلی دل کو ملتی ہے خداکو یاد کرنے سے
تحریر:شیخ طریقت حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب دامت برکاتہم
(سیکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ)
ایک شخص نے کسی اللہ والے سے پوچھا کہ حضرت!میں سکون چاہتا ہوں،اس کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا؟اللہ والے نے فرمایا: تم اپنے جملے میں سے ’’میں ‘‘نکال دو،اس لیے کہ یہ غرور کی علامت ہے،اسی طرح ’’چاہتا ہوں ‘‘یہ بھی نکال دو،اس لیے کہ یہ خواہش نفس کی علامت ہے،ان دونوں چیزوں کو نکال دینے کے بعد اب جو چیز تمہارے پاس بچے گی وہ صرف سکون ہوگا۔
سکون واطمینان اللہ کی بڑی نعمت ہے ،جسے اللہ نے اپنی اطاعت اور یاد میں پوشیدہ رکھاہے،میرے والدصاحبؒ فرماتے تھے کہ موتی دریا میں ملتا ہے اور اونٹ صحرا میں،جس طرح موتی صحرا میں نہیں ملتا اور اونٹ کو دریا میں تلاش نہیں کیاجاتا،اسی طرح سکون واطمینان کو بھی اگر کوئی شخص مال ودولت ،شہرت وناموری اور دنیا کے اسباب میں تلاش کرے گا تو نہیں پاسکے گا۔
حضرت ابراہیم ابن ادہمؒ بلخ کے بادشاہ تھے،آپ کا شمار اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندوں میں ہوتا ہے۔ایک رات آپ اپنے شاہی محل میں سوئے ہوئے تھے کہ چھت پر کسی کے چلنے کی آوازسنائی دی،بیدار ہوئے تو آواز دی کہ کون ہے جو رات کےوقت چھت پر چل رہا ہے اور نیند میں خلل ڈال رہا ہے؟چھت پر سے جواب آیا کہ ہم لوگوں کااونٹ گم ہوگیا تھا،اسے تلاش کر رہے ہیں۔آپ نے کہا: محل کی چھت پر اونٹ تلاش کرنا بیوقوفی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اونٹ محل کی چھت پرآجائے؟اوپر سے جواب آیا:تم ہم سے بھی زیادہ بیوقوف ہو، کبھی خدا بھی شاہی محلات میں ملتا ہے؟تم نرم بستر پرآرام کررہےہواور یہ بھی چاہتے ہو کہ تمہیں خدا مل جائے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟اتناسننا تھا کہ آپ کے دل کی دنیا بدل گئی،چنانچہ بادشاہت چھوڑی اورمحل سے نکل کھڑے ہوئے اور اللہ کی عبادت اور اس کی یاد میں مصروف ہوگئے ۔
موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور کہلاتا ہے،روزانہ حیرت انگیز ایجادات سامنے آرہی ہیں،جن کے ذریعے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اب ہماری زندگی مزید آسان ہوجائے گی اور سکون کی دولت میسرآجائے گی ۔لوگ ان ایجادات اور آسائشوں کو اسی غرض سے حاصل بھی کرتے ہیں ،انتہائی مہنگے اور عالیشان گھر تعمیر کرتے ہیں ،قیمتی سواریاں خرید تے ہیں ،سیر وسیاحت کی خاطر دنیا کے دور دراز کے مقامات کا سفر کرتےہیں،اس کے باوجود سکون کی نعمت سے محروم ہیں اور اس کی تلاش میں یہاں وہاں بھٹکتے پھررہےہیں ،دنیا کے وہ ممالک جو ترقی یافتہ کہلاتے ہیں اور جہاں دنیابھر کی سہولتیں اور آسائشیں پائی جاتی ہیں یہاں تک کہ دنیا بھر سے لوگ ان ممالک میں سیر وتفریح کے لیے پہنچتے ہیں،ایسے ممالک کابھی حال یہ ہے کہ وہاں رہنے والےسکون کے متلاشی ہیں اور جب یہ دولت انہیں میسر نہیں آتی تو دنیا کی الجھنوں اور دل کی بےچینیوں سے نجات پانے کے لیے وہ خود کشی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔اس کی وجہ یہی کہ وہ نہیں جانتے کہ سکون اور اطمینان کی دولت دنیا کے اسباب اور نئی نئی ایجادات میں نہیں بلکہ یہ تو اس خالق اورمالک کی یاد اور اطاعت میں پوشیدہ ہےجس نے انسانوں کو پیدا کیا اوراس دنیا کو بنایاہے۔لہذاسکون کےلیےبندے کو اللہ کی عبادت اوراس کے ذکر کا اہتمام کرناہوگا اور نیک اعمال کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہوگی۔قرآن کریم میں ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ (سورہ رعد آیت نمبر ۲۸)
یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور جن کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یا درکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بہت سارے مسلمان جن کے پاس ایمان کی دولت ہے اور قرآن کریم جیسی رہنمائی کرنے والی عظیم کتاب ان کے پاس موجود ہے، آج وہ بھی سکون واطمینان کی تلاش میں حیران وپریشان ہیں،لیکن جب اللہ کا منادی یعنی مؤذن مسجد کے میناروں سے صدا لگاتا ہے کہ’’ آؤکامیابی کی طرف‘‘ تو وہ اس پر توجہ نہیں دیتے اور اپنے دنیا وی مشاغل میں لگے رہتے ہیں،بعض لوگ تو گناہ کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں،اس غفلت کانتیجہ ہے کہ آج وہ لوگ سکون کی دولت اور کامیابی کی نعمت سے محروم ہیں۔بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں ظلم وزیادتی کر کے دوسروں کی زندگیوں کا چین وسکون غارت کردیا ہے،اور اب خود بھی بے چین اور پریشان ہیں، شاید وہ نہیں جانتے کہ جو دوسروں کو تکلیف پہنچاتا ہے وہ خود بھی سکون کی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے۔
آج ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے،ہم دنیا کے مشغلوں میں پورے طرح منہمک ہیں،اللہ کی عبادت اور اس کی یاد سے غفلت میں زندگی بسر ہورہی ہے، اس کے باوجود ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کا قرب ہمیں نصیب ہوجائے اور سکون کی دولت ہمیں میسرآجائے، حالانکہ اللہ نے سکون و اطمینان کو ایمان ، عمل صالح اور اپنے ذکر میں پوشیدہ رکھا ہے۔ جب تک ہم یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت و اطاعت اور اس کے ذکر کا اہتمام نہیں کریں گے ، ہم سکون کی دولت سے محروم رہیں گے،چاہے ہم دنیا بھر کی آسائشیں اپنے لیے مہیا کرلیں
نہ دنیا سے نہ دولت سے نہ گھر آباد کرنے سے
تسلی دل کو ملتی ہے خدا کو یادکرنےسے
ایمان افروز اور اثر انگیز مضامین پڑھنے کے لیے واٹس ایپ گروپ ,,فیض رحمانی,,جوائن کریں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں