مولانا ارشد مدنی صاحب کا بیان زوروں پر تھا۔ لوگوں کو ایک خدا کی پرستش کی دعوت دی جا رہی تھی۔ آدم کا وطن ہندوستان ہونے پر بھی گفت گو جاری تھی۔ اسلام کے سب سے قدیم مذہب ہونے کا اعلان بھی ہو چکا تھا۔ مذہب میں مداخلت پر ناراضی کا اظہار بھی کیا جا چکا تھا: غرض یہ کہ وہ اکثر باتیں مولانا کہہ چکے تھے جو ایک مسلم قائد کو کہنی چاہیے تھی۔ لیکن جیسے ہی مولانا نے اپنی تقریر ختم کی، ایک بت پرست کھڑا ہوا۔ مائک پر آ کر آدم و حوا اور دیگر انبیاء کے واقعات کو اس نے من گھڑت کہانیاں بتایا اور اس کی زبان اسی پر نہیں رکی؛ بل کہ اس نے مولانا کو مناظرے کا چیلنج بھی کر دیا اور کہا کہ یا تو آپ دہلی آ کر مناظرہ کر لیں یا مجھے سہارن پور بلا لیں!
اتنا ہو چکنے کے بعد جو منظر آنکھوں نے دیکھا وہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ اکثر غیرمسلم مذہبی کھڑے ہو گئے اور ہاتھ اٹھا کر مولانا ارشد مدنی صاحب کے بیان سے نااتفاقی کا اظہار کیا اور بت پرست کے مناظرے کے چیلنج کی حمایت کی۔
جن لوگوں کو بیساکھی بنا کر مولانا محمود مدنی اتحاد کا راگ الاپنے دہلی گئے تھے اسے غیرمسلموں نے محض مولانا ارشد مدنی کے اسلام کی بات کرنے پر لات مار دی۔ اور یوں اتحادی پروگرام میں مخالفت کا بگل بجا۔
مولانا محمود مدنی صاحب نے بت پرست کی اسلام مخالف باتوں پر فورا پردہ ڈال دیا اور سارے بت شکن خاموش ہو گئے۔ کچھ نے تو اسے اظہارِ خیال کی آزادی بتا کر سامعین کے کانوں میں رس گھولا۔
مجھے سب کچھ مناسب لگا۔ غیروں نے اپنی ذہنیت کا اظہار جس بوکھلاہٹ سے کیا، وہ منظر بھی قابل دید تھا؛ لیکن کسی بت شکن کو بالخصوص مولانا ارشد مدنی صاحب کو جوابا کہہ دینا چاہیے تھا کہ یہ میدان مناظرے کا نہیں؛ لیکن ہم آپ کی خواہش پر مناظرے کا میدان بھی سجا سکتے ہیں۔ وقت اور جگہ کی تعیین بھی اسی کے سپرد کر دی جاتی؛ تاکہ یہ ثابت ہو جاتا کہ ہم روڑکی کی تاریخ دوہرانا جانتے ہیں!
✍️:- کلیم احمد نانوتوی☝️☝️
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں