src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> جمشید پور القاعدہ مقدمہ: دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام ثابت نہیں ہوسکا غیر قانونی طور پر ہتھیار رکھنے کے لئے آٹھ سال کی سزا اور بیس ہزار روپئے جرمانہ - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

پیر، 27 فروری، 2023

جمشید پور القاعدہ مقدمہ: دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام ثابت نہیں ہوسکا غیر قانونی طور پر ہتھیار رکھنے کے لئے آٹھ سال کی سزا اور بیس ہزار روپئے جرمانہ








جمشید پور القاعدہ مقدمہ

                                                      

دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام ثابت نہیں ہوسکا, غیر قانونی طور پر ہتھیار رکھنے کے لئے آٹھ سال کی سزا اور بیس ہزار روپئے جرمانہ




ممبئی 27/ فروری : جمشید پور سیشن عدالت نے گذشتہ کل دہشت گردی کے الزامات سے ایک مسلم نوجوان کو یہ کہتے ہوئے بری کردیا کہ استغاثہ ملزم کے خلا ف عائد سنگین الزامات ثابت نہیں کرسکی حالانکہ عدالت نے ملزم کو غیر قانونی طور پر بندوق رکھنے کے الزامات کے تحت  8/سا ل قیدبا مشقت اور بیس ہزار روپئے جرمانہ کی سزا سنائی ہے، ملزم مسعود ا کرم 25/ جنوری 2015 سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید ہے، استغاثہ نے ملزم پر ممنوعہ تنظیم القاعدہ کے رکن ہونے اور ہندوستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دینے جیسے سنگین الزامات عائید کیئے تھے، ملزم، پر یہ بھی الزام تھا کہ وہ القاعدہ سے جڑنے کے لیئے نوجوانوں کی ذہن سازی بھی کر تا تھا لیکن عدالت میں استغاثہ یہ الزامات ثابت نہیں کرسکا۔ ملزم مسعود اکرم کو جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی نے قانونی امداد مہیا کی۔



استغاثہ نے ملزم مسعود ا کرم شیخ پر تعزیرات ہند کی دفعات 121/121A/124(A)/120(B)/34، آرمس ایکٹ کی دفعات 25(1-B)A/26/35/25(1-A)، یو اے پی اے قانون کی دفعات 16/17/18/18B/19/20/21/23 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا لیکن ٹرائل کورٹ میں استغاثہ یہ ثابت نہیں کرسکا کہ ملزم کسی طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھا اور اس کا ممنوعہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے تعلق تھا۔


ایڈیشنل سیشن جج سنجے کمار اپادھیائے نے ملزم مسعود ا کرم کو آرمس ایکٹ کی دفعہ 25 کے تحت قصور ٹہرایا۔قصور ٹہرائے جانے کے بعد عدالت نے سزا کے تعین پر فریقین کی بحث کی سماعت کی جس کے دوران استغاثہ نے عدالت سے درخواست کی کہ ملزم کو زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے تاکہ وہ اس کی سزا سماج میں ایک پیغام دے کہ غیر قانونی طریقے سے ہتھیار رکھنے کی سزا کیا ہوسکتی ہے۔



ملزم کی پیروی کرتے ہوئے ایڈوکیٹ جاوید نے عدالت سے گذارش کی کہ ملزم کو جیل میں گذارے گئے ایام کو ہی سزا مان کر اسے رہا کردیا جائے۔انہوں نے عدالت سے مزید کہا کہ ملزم سات سال سے زائد کا عرصہ جیل میں گذار چکا ہے اور ملزم کا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے ہے اور ملزم خود اعلی تعلیم یافتہ ہے نیز جیل میں ملزم کا طرز عمل مثالی رہا ہے لہذا عدالت کو انسانی بنیادو ں پر ملز م کے ساتھ رعایت کرنا چاہئے۔فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد عدالت نے ملزم کو آٹھ سال کی سزادی۔ اس مقدمہ میں ایڈوکیٹ واصف رحمان خان نے ایڈوکیٹ جاوید کی معاونت کی۔



 جمشید پورسیشن عدالت کے فیصلے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے ممبئی میں اخبار نویسوں کا بتایا کہ ملزم کی گرفتاری کے بعد ملزم کا ممنوعہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے تعلقات کا جو ڈھنڈورہ پیٹا گیا تھا آج وہ ثابت نہیں ہوسکا، عدالت نے دہشت گردی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے جیسے سنگین الزامات سے ملزم کو بری کردیا جو اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت اعلی تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی جیسے جھوٹے الزامات میں گرفتار کیا جاتا رہا ہے۔


انہوں نے کہا کہ گذشتہ ہفتہ ہی دہلی کی سیشن عدالت نے بھی چھ مسلم نوجوانوں کو القاعدہ کے رکن ہونے کے الزامات سے بری کردیا تھا جنہیں جمعیۃ علماء نے قانونی امداد فراہم کی تھی۔


گلزار اعظمی نے کہا کہ موجودہ مقدمہ کئی سالوں سے التواء کا شکار تھا، مقدمہ کی جلداز جلد سماعت کے لیئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ نے نچلی عدالت کو سخت ہدایت دی تھی کہ مقدمہ کی سماعت جلداز جلد مکمل کی جائے، سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد ہی اس مقدمہ کا اختتام ہوسکا۔ نچلی عدالت کے فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل داخل کرنے کے تعلق سے گلزار اعظمی نے کہاکہ فیصلے کا مطالعہ کرنے اور وکلاء سے صلاح و مشورہ کرنے بعد اگلا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages