src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

بدھ، 4 جنوری، 2023



ہلدوانی کے ۵۰ ہزار لوگوں کی انصاف کی پکار
 شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
اترا کھنڈکے ہلدوانی قصبہ کے بن پھول پورہ میں اِن دنوں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے ، اپنے اُن مکانوں اور ٹھکانوں کو بچانے کے لیے ، جن میں وہ کئی کئی نسلوں سے رہتے چلے آ رہے ہیں ، انصاف کے لیے حکمرانوں کو پکار بھی رہی ہے ، کینڈل مارچ بھی کر رہی ہے ، اجتماعی دعاؤں کا اہتمام بھی اور دہلی کے شاہین باغ کے طرز پر ، سخت ترین سردی کے باوجود ، احتجاجی دھرنے پر بھی بیٹھی ہے ۔ احتجاجی دھرنے پر بیٹھنے والوں میں بچے ، بوڑھے ، مرد اور عورتیں سبھی شامل ہیں ۔ اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے کچھ پہلے ہی ، اِن مکانوں کو ، جن کی تعداد ساڑھے چار ہزار بتائی جا رہی ہے ، ریلوے کی جائیداد مان لیا ہے ، اور انہیں غیر قانونی تجاوزات قرار دے کر انہیں ہٹائے جانے کا فیصلہ سنایا ہے ۔ عدالتی فیصلے کے بعد مسلم اکثریتی غفور بستی کے ۳۶۵ مکینوں کو ریلوئے انتظامیہ کی جانب سے نوٹس سونپ دیا گیا ہے کہ وہ اس زمین کو ، جس پر ان کے مکانات بنے ہوئے ہیں ، جلد سے جلد خالی کر دیں ، اگر یہ مکان خالی نہیں کیے گیے اور زمین ریلوئے انتظامیہ کو سونپی نہیں گئی تو ’ انہدامی کارروائی ‘ کی جائے گی ۔ ایسا مانا جا رہا ہے کہ ۹، جنوری سے انہدامی کارروائی شروع کی جا سکتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ انہدامی کارروائی کا مطلب پچاس ہزار لوگوں کو ان کے ٹھکانوں سے بے گھر کرنا یا انہیں اجاڑنا ہے ۔ اس معاملہ میں دو باتیں بہت اہم ہیں ، ایک تو یہ کہ ریلوئے انتظامیہ نے جس زمین پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا ہے ، اس زمین پر صرف مسلم اکثریتی بستی ہی کو اجاڑنے کا منصوبہ ہے ، باقی کی زمین پر بنے مکان ، گھر اور دوکانیں نہ تو اجاڑے جائیں گے اور نہ ہی ان کے انہدام کا فی الحال کوئی منصوبہ ہے ۔ چونکہ جو زمین خالی کرانی ہے اُس پر ۹۵ فیصد مسلمان آباد ہیں ، اور صرف ۴ فیصد ہندو رہتے ہیں ، اس لیے الزام یہ لگایا جا رہا ہے کہ اتراکھنڈ کی بی جے پی کی حکومت مسلمانوں کو دانستہ اجاڑنا چاہتی ہے ۔ اس الزام میں حقیقت ہو یانہ ہو سچ یہی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اتراکھنڈ کی بی جے پی کی حکومت کا رویہ متعصبانہ رہا ہے ، اس نے انہدام کے خطرے کو ٹالنے کے لیے نہ ہی تو عدالت میں کوئی دلیل پیش کی ہے اور نہ ہی اتنے بڑے پیمانے پر اپنے شہریوں کو اجاڑنے کے ریلوئے کے منصوبے میں کسی طرح کی کوئی مداخلت ہی کی ہے ، جبکہ پہلے کی ریاستی سرکاروں نے ، اس فیصلے سے قبل کے عدالتی فیصلوں کے خلاف باقاعدہ اپیلیں کی تھیں ، بلکہ زمین پر ریلوئے کے حق کو بھی چیلنج کیا تھا ۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ عدالتِ عالیہ کیسے ، اس حالت میں کہ ابھی  زمین پر ریلوئے کے ملکیت کے دعویٰ کے خلاف اپیلیں شنوائی کے لیے پڑی ہوئی ہیں ، زمین خالی کرانے کا حکم سنا سکتی ہے ؟ لوگ اسّی اسّی سالوں سے یہاں رہتے چلے آ رہے ہیں ، اگر انہیں اجاڑا جائے گا تو وہ کس جگہ آباد کیے جائیں گے اور کہاں اپنے ٹھکانے بنائیں گے ؟ یہ دونوں ہی سوال بہت اہم ہیں ، لیکن اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ان سوالوں پر غور نہیں کیا ہے ۔ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے جس پر ۵ ، جنوری کو شنوائی ہونی ہے ۔ درخواست میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ زمین ریلوئے کی نہیں ہے نزول کی زمین ہے اور  بہت سے لوگوں نے مکانات بنانے کے لیے باقاعدہ زمینیں خریدی ہیں ، ان کے پاس قانونی دستاویزات بھی ہیں ۔ بہرحال معاملہ سپریم کورٹ میں وہ جو فیصلہ کرے ۔ ایک حیرت انگیز امر یہ ہے کہ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے ۲۰۱۶ ء کے ڈھانچوں کو ریگولرائز کرنے ، بازآبادکاری کرنے نیز ری سٹلمینٹ کرنے کے قانون پر غور نہیں کیا ، یعنی اگر یہ ٹھکانے ہٹائے جاتے ہیں تو ان کے مکینوں کے سامنے بس انھیرا ہی اندھیرا ہے ۔ یہ معاملہ آج کا نہیں ۲۰۰۷ء کا ہے جب پہلی دفعہ نارتھ ایسٹرن ریلوئے ( این ای آر ) نے ہائی کورٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ ہلدوانی ریلوئے اسٹیشن کی ۲۹ ایکڑ زمین پر تجاوزات ہیں ، لیکن اس نے ۱۰ ایکڑ زمین پر سے قبضہ جات ہٹا دیے ہیں ، اب باقی کی جو ۱۹ ایکڑ کی زمین بچی ہے وہ اسے دلائی جائے ۔ معاملہ ۲۰۱۳ء میں پھر زور شور سے اٹھا ۔ ۲۰۱۵ء اور ۲۰۱۶ ء میں اس پر سیاست بھی ہوتی رہی اور عدالتی کارروائی بھی چلتی رہی ، عدالت نےتجاوزات ہٹانے کے لیے دو فیصلے بھی دیے لیکن اُس وقت کی ریاستی حکومتوں نے ریلوئے کے دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے زمین کو ریاستی سرکار کی زمین قرار دیا ۔ ایک بار یہ بھی کہا کہ اس کے پاس انہدامی کارروائی کے لیے نہ فورس ہے نہ کوئی عملہ ۔ اس معاملے کا مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ ریلوئے انتظامیہ نے پہلے ۲۹ ایکڑ زمین پر دعویٰ کیا ، پھر کہا کہ دس ایکڑ زمین حاصل کر لی ہے صرف ۱۹ ایکڑ زمین حاصل کرنا باقی ہے ، لیکن بعد میں یہ زمین ۷۸ ایکڑ ہو گئی ! لوگوں کے گھروں کو اجاڑنا بہت آسان ہے لیکن گھر بنانا بہت مشکل ، لہٰذا عدالتِ عظمیٰ کو اُن پچاس ہزار سے زائد افراد کی بے بسی کو دھیان میں رکھنا ہوگا جن کے گھر بل ڈوزر کی زد میں آ سکتے ہیں ۔ کسی کے گھر اجاڑنے سے بہتر یہ ہے کہ قانون کے مطابق انہیں اسی زمین پر رہنے کی اجازت دی جائے ، ان کے مکانوں اور ٹھکانوں کو ریگولرائز کیا جائے اور انہیں یہ احساس نہ ہونے دیا جائے کہ ان کے ساتھ صرف ان کے مذہب کی بنیاد پر سوتیلا سلوک کیا جا رہا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages