src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

بدھ، 4 جنوری، 2023

آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل





 آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل



ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی



           15 اگست 1947 کی درمیانی شب میں ہمارا ملک فرنگیوں کے قبضہ و تسلط سے آزاد ہوا۔ انگریزوں نے تقریباً 90 سال تک بڑے آن و بان اور شان و شوکت کے ساتھ یہاں کے ذرہ ذرہ پر حکومت کی۔ انہوں نے اپنی حکومت و اقتدار کے زمانہ میں ہندوستانیوں پر ظلم و ستم کے ایسے ایسے پہاڑ توڑے جس کے تذکرے سے قلم کانپتا اور دل تھرا تھرا جاتا ہے۔ انگریزوں کے مظالم کو دیکھتے ہوئے سب سے پہلے جہد آزادی کی ابتدا والیٔ بنگال نواب سراج الدولہ نے پلاسی کے میدان سے کیا، جس کا سلسلہ 1947ء تک جاری رہا۔ حصول آزادی کی خاطر صعوبتیں اور پریشانیاں برداشت کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن میں ہندو بھی ہیں، مسلمان بھی اور دوسری قوموں کے افراد بھی، لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلمانوں نے پوری جنگ آزادی میں جتنا اپنا خون بہایا ہے دوسروں نے اتنا پسینہ بھی نہیں بہایا ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان کو آزاد ہوئے چھ دہائیوں سے زائد عرصہ گزر گیا ہے۔ لیکن ہندوستانی مسلمان کا حال نہایت بے حال ہے، ہندوستانی مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی زیادہ پسماندہ ہے۔ حالانکہ بعض اندازوںکے مطابق 20 کروڑ سے بھی زیادہ مسلمان ہندوستان میں آباد ہیں۔ مسلمانوں کی پسماندگی کی یہ حالت جہاں پورے مسلم طبقہ کی ترقی کی راہ میںرکاوٹ ہے، وہیں ملک کی ترقی کے لئے بھی کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے، کیوں کہ جس ملک میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ پسماندہ ہوں گے تو وہ ملک ترقی کی راہ پر کیسے گامزن ہوسکتا ہے۔ ملک ترقی یافتہ تو اسی وقت ہوگا جب کہ ملک کے تمام طبقات خوش حال ہوں۔ جہاں تک حالات کا تعلق ہے تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہندوؤں کی بعض احیائی تحریکوں نے مسلمانوں کو معاشی سیاسی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ رکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ مسلمانوں کا وجود بھی انہیں برداشت نہیں، مذہب اور تہذیب کو برداشت کرنے کا سوال تو بعد میں آتا ہے، ’’مسلم مکت بھارت‘‘ ان کا نعرہ ہے۔ بابری سے دادری تک افسوسناک واقعات کا جانگسل سلسلہ ہے، ہندوستانی مسلمانوں کا ماضی ترقی و کمال ہے۔ مستقبل کے بارے میں پتہ نہیں عروج ہے یا زوال، مستقبل تو پردہ غیب میں ہے، جو کچھ ہمارے بس میں ہے وہ حال ہے اور حال کی حالت نہایت زار ہے۔ مسلمانوں کو ان حالات میں کیا راہ عمل اختیار کرنا چاہئے، ان حالات میں مسلمانوں کو شریعت اسلام نے جو مکمل دستور العمل اور نظام حیات کا نام ہے کیا رہنمائی کرتا ہے، مذہب اسلام کی روح ان حالات میں ہندوستانی مسلمانوں کو کیا پیغام دیتی ہے اس سلسلے میں مولانا آزادؒ کی یہ تقریر پڑھئے، حضرت مولانا آزاد فرماتے ہیں: میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان ہوں۔ اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثہ میں آئی ہیں۔ میں تیار نہیں ہوں کہ اس کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں۔ اسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم و فنون، اسلام کی تہذیب میری دولت و سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں، بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں ایک خاص ہستی رکھتا ہوں اور میں برداشت نہیں کر سکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے، لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتا ہوں، اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی، وہ اس راہ میں میری راہنمائی کرتی ہے، میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوسانی ہوں، میں ہندوسان کی ایک اور ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں، جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے، میں اس کی تکوین کا ایک ناگزیر عامل ہوں، میں اس دعویٰ سے کبھی دست بردار نہیں ہوسکتا۔ آج جب کہ مسلمانوں کو قومی دھارا میں شامل ہونے، مذہبی تشخص کو ختم کرنے اور قومی یک جہتی کے نام پر اسلامی اقدار کو چھوڑ دینے کی آواز مختلف حلقوں سے بار بار اٹھتی ہے، اس سلسلے میں ہندوستانی مسلمانوں کو حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کیا رہنمائی فرماتے ہیں، پڑھئے مولانا آنسوؤں اور ہچکیوں کے ساتھ فرماتے ہیں: قیامت کے دن جو سوال ہم لوگوں سے ہوگا اس کا جواب سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم خدا کے سامنے کس طرح عہدہ بر آں ہوں گے وہ فرمایا کرتے!


 اسلام ایک تنظیمی مذہب ہے، اس مذہب کی روح ڈسپلن اور نظم چاہتا ہے، اگر مسلمان منتشر رہیں اور کسی ایک شخص کی اطاعت نہ کریں اور اپنا کوئی امیر منتخب نہ کریں تو یہ زندگی غیر شرعی زندگی ہوگی۔ ہر ایک پیغمبر جو دنیا میں آتا ہے، اس نے اپنی ابتدائی تقریر میں دو باتیں لازمی طور پر کہی ہیں۔ ’’فاتقوا اللہ و اطیعون‘‘ یعنی اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور یہی اطاعت وہ چیز ہے جس پر قوموں نے مخالفت کی ہے۔ عام طور پر قومیں خدا کی قوت اور طاقت تسلیم کرنے کو آمادہ ہوجاتی ہیں۔ لیکن پیغمبر کی اطاعت پر رضامند نہ ہوتی تھیں۔پیغمبر کی اطاعت کو وہ اپنی عزت ، برتری اور اپنی سرداری کے منافی سمجھتی تھیں، اس وجہ سے کہتے تھے۔ ’’ماہٰذا الا بشر مثلکم یرید ان یتفضل علیکم‘‘ یعنی پیغمبر بھی تم جیسا آدمی ہے یہ اپنی بڑائی منوانی چاہتا ہے اور ہم پر حکومت کرنا چاہتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو مکہ کے سرداروں کو کھٹکی اور یہی وہ امر ہے جس نے اہل کتاب کو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے باز رکھا۔ اسی نقطہ پر قوموں سے مخالفت ہوئی، لیکن پیغمبر اس حق سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں ہوئے اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ خدائی مذہب ہی بنیادی چیز ہے، جب تک پیغمبروں کی اطاعت پر تیار نہ ہو خدائی مذہب کی تکمیل نہیں ہوسکتی اور تنظیمی زندگی بھی میسر نہیں آسکتی۔



 آج مسلمانوں کی بڑی تعداد بنیادی باتوں سے عملاً دور ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے کے مطابق زندگی گزارنے کا حکم کیا گیا ہے، کیا واقعی موجودہ دور کے مسلمان ایسا کر رہے ہیں۔ کیا ہم نے اس ملک میں مساوات کا عملی نمونہ ہم وطن بھائیوں کے سامنے پیش کیا ہے، کیا ہمارے اعمال و کردار کے اندر وہ دلکشی و خوبصورتی پیدا ہوگئی ہے جس کا کہ اسلام خواہاں ہے؟ کیا ہمارے اندر وہ اخلاقی خصوصیات موجود ہیں جس سے کہ ہمیں ایک شریف انسان اچھا پڑوسی اور عمدہ شہری کہا جاسکے، کیا ہم نے خدمت و ایثار اور قربانی، ایمانی امانت قربانی اور اخلاقی بلندی کا کوئی انمٹ نقش قائم کیا ہے، اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو اے مسلمانو! اس ملک میں اپنی یہ تصویر بنانی ہی ہوگی ورنہ اس ملک میں ہمارا مستقبل نشان زوال ہے۔ پندرہ اگست کو ہم یوم آزادی منا رہے ہیں تو ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم جشن آزادی کے اس روح پرور موقع پر اپنے ان رہنماؤں، سرفروشوں اور جیالوں کی روحوں کو خراج عقیدت پیش کریں، جنہوں نے ہماری نسلوں کے لئے آزدی جیسی نعمت حاصل کرکے ہمیں آزادی کی لازوال دولت اور نعمت عظمیٰ سے سرفراز فرمایا۔ حصول آزادی کی خاطر سب کچھ گوارہ کیا، جیل کی صعوبتیں برداشت کیں، سفر کی تکلیفیں اور اس راہ میں آنے والی تمام پریشانیوں کو مبارکباد کہہ کر گلے سے لگا لیا، اس ملک سے اس مرد شیر کی شہادت کو کون بھلا سکتا ہے؟ جس کا نام ٹیپو سلطان ہے، جس نے انگریزوں سے لڑتے لڑتے یہ کہتے ہوئے شربت شہادت نوش کر لیا کہ ’’شیر کی زندگی کا ایک لمحہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ اسی طرح ایک مجاہد کا واقعہ ہے کہ جب انگریزوں نے انہیں گرفتار کر لیا اور ان سے کہا کہ معافی مانگو، تو اس پر انہوں نے برجستہ کہا، میں معافی مانگ کر ہندوستانیوں کا سر نیچا نہیں کروں گا اور یہ کہہ کر مسکراتا ہوا پھانسی کا پھندا گلے میں ڈال لیا۔

 سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages