src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> اسرار رموز کا شاعر اسرار عالم سیفی - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

جمعرات، 5 جنوری، 2023

اسرار رموز کا شاعر اسرار عالم سیفی




اسرار رموز کا شاعر اسرار عالم سیفی 



مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری شریف پٹنہ ،
موبائل نمبر : 7909098319



 اردو  ایک شیریں اور زندہ وجاوید زبان ہے ۔ دیگر زبانوں کی طرح یہ زبان بھی سلسلہ ارتقاء کی تمام کڑیوں سے گزری ہے اور تاریخی، سیاسی ، جغرافیائی اور علمی اثرات قبول کرکے دنیا کی سرمایہ دار زبانوں کی صف میں شمار ہوتی ہے ۔ اس زبان کا حسن اس کی شاعری ہے، اور شاعری زبان وادب کی ترجمانی و نمائندگی کرتی ہے، اس لئے کہ شاعری کے ذریعہ زبان وبیان کی جاذبیت، چاشنی، حسن، گہرائی و گیرائی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اور شاعری کسی بھی انسان کے لئے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کو حسن وجاذبیت کے ساتھ چند اصول وضوابط کی پابندیوں کے ساتھ اظہار و خیال کا نام ہے۔ شاعری کے ذریعہ ہمیں بیک وقت کئی پہلوؤں کا علم و اندازہ ہوتا ہے، انسان  مناظر قدرت اور اپنی تفکرات میں گم رہتا ہے، ہر انسان کا ذاتی نظریہ، ذاتی تجربہ، اور ذاتی مشاہدہ ہوتا ہے۔اور اسے خوبصورت پیرائے میں ڈھال کر اس کا اظہار کرتا ہے ۔شاعر اپنی شاعری کے ذریعہ معاشرے کو درست اور صحیح سمت کی جانب گامزن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔شاعر سماج ومعاشرہ کے ان مسائل پر بھی توجہ دلاتا ہے جہاں تک ہر ایک کی رسائی ممکن نہیں ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ مثبت انداز فکر رکھنے والے شعراء نے قوموں میں ہمیشہ شعور بیدار کیا۔
الطاف حسین حالی نے شاعری کی تعریف یوں کی ہے،، 


خیالات و جذبات،  اقدار و روایات ، مدح و ذم، حالات  و واقعات  وغیرہ  کو غیر معمولی انداز میں موزوں کر کے  پیش کرنا  شاعری کہلاتا ہے۔
ایک شاعر جب شعر کہتا ہے تو وہ گویا سحر کرتا ہے، شاعری کی زبان در اصل ساحری کی زبان ہوتی ہے جس سے ہر خاص وعام متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ شاعر کی زبان پورے کائنات کی زبان ہوتی ہے کیوں کہ وہ  کائنات کے حادثات کو اپنے تخیلات میں سموئے رکھ کر گاہے بگاہے اس کا اظہار کرتا رہتا ہے،چونکہ شاعری کی بنیاد قوت متخیلہ پر ہے،  شاعر کا تخیل جتنا بلند ہوتا ہے شعر میں بھی وہ بلندی، گہرائی وگیرائ نظر آتی ہے،


جب کوئی شاعر اپنے وسیع وعریض تجربات اور مشاہدات کی بنا پر اپنی شاعری کو حقیقی رنگ و آہنگ دیتا ہے  تو اس میں مثبت سوچ ، عادلانہ فیصلے ، حکیمانہ فلسفے ، بصیرت وبصارت اور درد و رحم جیسی صفات پیدا ہو جاتی ہیں۔
 


کائنات علم و ادب میں اپنے نام اور شہرت کا ڈنکا بجانے والے شاعر کا اصل نام محمد اسرار عالم سیفی ہے ۔ آپ 16 مئ1963ء؁ کو ضلع نالندہ کے مردم خیز گاؤں اسلام پور میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد ماجد کا نام مولوی محفوظ عالم مرحوم ہے ۔ رائے پور چھتیس گڑھ میں محکمۂ جنگلات میں آپ ملازم تھے ۔ ابتدائی تعلیم اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی ۔ آپ حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کر چکے ہیں، بی اے، اور ایم اے، اردو زبان میں پٹنہ یونیورسٹی سے کیا،آپ کے اساتذۂ کرام میں مولانا فصیح احمد، مولانا رضا کریم، مولانا سید محمد ندوی وغیرہ کا نام ہے، آپ کے بڑے بھائی محمد سرفراز عالم مرحوم نے آپ کی تعلیم و تربیت پر کافی جد وجہد کی، جس کا تذکرہ آپ نے اپنی تصنیف میں بھی کی ہے، آپ نے جن اساتذۂ کرام کی اردو زبان وادب میں رہنمائی حاصل کی ان میں پروفیسر جمیل احمد، پروفیسر اعجاز علی ارشد، پروفیسر ڈاکٹر کلیم عاجز، پروفیسر اسرائیل رضا کا نام سر فہرست ہے۔


اسرار سیفی کی حمدیہ شاعری کے چند اشعار 


اے خدا اے پاک اے رب کریم
 تیری رحمت عام ہے بخشش عظیم
 اے کہ تیری ذات نوری لم یزل
 اے کہ تو ہے خالق حکم عمل
اے کہ تو ہے مالک ارض و سما
اے کہ تو آقا ہے لولاک لما 
تیری رحمت ہے محیط بے کراں
 تیری قدرت ہے صریح کن فکاں
  تجھ سے قائم ہے جہانِ رنگ و بو
 فرش سے تا عرش مولا تو ہی تو 
ہے اطاعت میں تیری مخفی نجات
 تو ہی اک رکھتا ہے لافانی صفات
عمر بھر سیفی ہو زندہ صبر سے
کلمہ پڑھتے نکلے اپنی قبر سے۔



حمدیہ شاعری اس سعادت وبندگی کا نام ہے جس میں براہ راست بندے کا تعلق خدا سے ظاہر ہو،  اور رب کائنات کو اس کے ذاتی وصفاتی اسماء سے اس طرح پکارا جائے کہ رب کی جانب سے اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ کا مصداق بن جائے، اس کی عظمت وکبریائ ، رحمت و مغفرت  اور محبوبیت کا اظہار ہوجائے ، اور ہر جہت سے بندے کا اپنے معبود حقیقی سے تعلق اور رشتہ  ظاہر ہو۔ اور ان تمام باتوں کا اظہار اسرار عالم سیفی کے حمدیہ اشعار میں نظر آتے ہیں

نعت کے چند اشعار

حشر کے دن کوئی آسرا چاہیے
ہاتھ میں دامن مصطفیٰ چاہیے
یوں کسی کو بھی دارین ملتا نہیں
اسوۂ خاتم الانبیاء چاہیے



کوئی امید کسی کا نہ سہارا کہیو
اس بھری دنیا میں کوئی نہ ہمارا کہیو
ہر خوشی غم میں انہیں کو ہے پکارا کہیو
اک جھلک مجھکو بھی دکھلائیں نظارہ کہیو



کاش مجھ کو بھی شہ دیں کی محبت ملتی
قلب کو ملتا سکوں روح کو راحت ملتی
خاک پا اپنی ان آنکھوں میں لگاتا میں بھی
تیرے روضے پہ جو آنے کی اجازت ملتی۔



نعتیہ کلام کا تعلق چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت حسنہ سے ہے، نعتیہ کلام میں شاعر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبت کرتا ہے اور یہ اظہار محبت در اصل بندگی کا سب سے اہم تقاضا ہے، کیوں کہ اللہ رب العزت نے واضح طور پر فرمایا کہ جو نبی سے محبت رکھتا ہے وہ دراصل ہم سے محبت کرتا ہے، موصوف نے نعت کے دائرے کو مکمل ملحوظ رکھتے ہوئے کلام فرمایا ہے، عموماً شعراء کرام نعتیہ کلام میں افراط اور تفریط کے شکار ہوجاتے ہیں، لیکن آپ نے اپنے کلام کو بہت ہی خوبصورتی سے پیش کیا ہے ۔


غزل کے چند اشعار

خودی کی فکر ہے اہل سخنوراں میں ہوں
تلاش عشق ہے منزل کہ عاشقاں میں ہوں
تخیلات کی دنیا نہ پوچھئے مجھ سے
کمند ڈالتا پھرتا میں آسماں میں ہوں



مجھ سے ایثار، وفا، عشق جنوں مانگے ہے
زندگی اور ابھی میرا ہی خوں مانگے ہے
مانگنے کا بھی ہے انداز نرالا ایسا
راز پائے نہ سمجھنے کوئی یوں مانگے ہے۔



آپ کی شاعری محض شاعری نہیں ہے  بلکہ ایک فکر ہے، ایک ایسی ذات ہے  جہاں ایک حیات پھوٹتی ہے اور کہکشاں کی قوض و قضا سے کائنات روشن کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ایک نیوٹرون کی حیثیت ہے اسی طرح انسان خودی کا مظہر ہے۔



عرفان وآگہی کے انا کے خودی کے ہیں
آنسو جو چشم تر میں ہیں وہ بیخودی کے ہیں
اپنے لگائے فصل کو ہی کاٹتے ہیں لوگ
جو پیش مشکلات ہیں تحفے اسی کے ہیں،



خشم آلود تیور دیکھتا ہوں
ترے ہاتھوں میں خنجر دیکھتا ہوں
نظر کا زاویہ بدلا ہوا ہے
کہاں اب کچھ بھی بہتر دیکھتا ہوں۔



اسرار عالم سیفی اصول اور فن کے لحاظ سے ایک کامیاب شاعر نظر آتے ہیں، آپ کی شاعری فن پاروں پر مکمل اترتی نظر آتی ہے، آپ نے روایتی انداز سے ہٹ کر کلام کرنے کی سعی کی ہے، آپ اپنی شاعری کے ذریعہ زندگی کی حقیقت اور اس کی تہ تک پہنچنا چاہتے ہیں،



میں ستم رسیدۂ عصر ہوں مجھے زندگی کی تلاش ہے
تری حمد خوانی کی جستجو تری بندگی کی تلاش ہے،
نہ غزل بیانی کا ذوق ہے نہ تو نغمہ خوانی کا شوق ہے
جو سکھائے سوز دروں فقط اسی شاعری کی تلاش ہے ۔



یقیناً کامیاب شاعری اور بامقصد شاعری وہ شاعری ہے جو حقیقت سے بالکل قریب ہو، کیوں کہ شاعری کے مقاصد لہو ولعب نہیں بلکہ شاعری ایک پیغام ہوتا ہے،


تسلسل روانی اور سلاست کی بات کریں تو ان کے کلام میں صاف نمایاں ہیں، جب ہم کلام پڑھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زبان خود بخود کلام تک پہنچ رہی ہے، 



متاع دو جہاں ہے اور میں ہوں
خدائے کن فکاں ہے اور میں ہوں
فریبِ دوستاں ہے اور میں ہوں
ہجوم دشمناں ہے اور میں ہوں،



کبھی ایسی خطا مت کیجئے گا
تعلق منقطع مت کیجئے گا
عداوت کا چلا کر تیر سیفی
زباں کو بے مزہ مت کیجئے گا۔



آپ کے چند اشعار سے اس بات کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حالات حاضرہ سے آپ کس قدر واقف ہیں، آپ کا دائرہ محض لوح اور قرطاس تک محدود نہیں، بلکہ آپ سماج ومعاشرہ کے احوال سے کلی طور پر واقف ہیں، اور ایک شاعر کے لئے یہ جزء لازم کی حیثیت رکھتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد ماحولیاتی کا جائزہ لیتا رہے۔



وائرس کی نئی یلغار ہے دیکھو سمجھو
زیست اور موت کی تکرار ہے دیکھو سمجھو
داستاں آج بھی خوں رنگ مناظر کے لئے
غمزدہ صبح کا اخبار ہے دیکھو سمجھو



ہوس کی آگ بڑھتی جارہی ہے
مسلسل تشنگی ہی تشنگی ہے
خرد پہ تیرگی چھائی ہوئی ہے
گناہوں میں ملوث زندگی ہے


ہے دشمن بھائی کا بھائی جہاں ہم لوگ رہتے ہیں
ادھر کنواں ادھر کھائی جہاں ہم لوگ رہتے ہیں،
کوئی مسلک میں الجھا ہے کوئی فرقہ پرستی میں
مسیحا نہ مسیحائی جہاں ہم لوگ رہتے ہیں،



تمہاری الفت کا دم بھروں میں یہی تو مجھ سے ہوا نہیں ہے
جفاؤں کو بھی وفا ہی کہنا تقاضا انصاف کا نہیں ہے،

معرفت کی طرح آگہی کی طرح
زندگی ہے کہاں زندگی کی طرح
رب نے بخشی قیادت تمہیں تھی مگر
تم کھڑے ہو گئے مقتدی کی طرح،

کسی کو اب کسی کی سروری اچھی نہیں لگتی
بھلا اچھا نہیں لگتا خوشی اچھی نہیں لگتی
تمہارا کام ہے غیروں سے ملنا دل لگی کرنا
ہمیں سیفی یہ طرز مغربی اچھی نہیں لگتی،

یہ اس کی سلطنت جب بیخودی میں ڈوب جائے گی
پتہ کب تھا کسی کو دو گھڑی میں ڈوب جائے گی
تقابل عالموں کا جاہلوں سے ہو نہیں سکتا
جہالت علم کی تا بندگی میں ڈوب جائے گی،



چاند تنہا آسماں تنہا
باغ ہستی کا باغباں تنہا
کل قیامت میں بھول مت سیفی 
پاس کرنا ہے امتحاں تنہا 



امید ویاس کا جو آستاں نظر آیا 
ہمیشہ مجھ سے وہی بدگماں نظر آیا 
زمین سرخ ہے ظالم کے ظلم سے سیفی 
سکوں کا کوئی بھی خطہ کہاں نظر آیا



آپ سے میری ملاقات نہیں تھی پہلے
مہرباں صورت حالات نہیں تھی پہلے
تیرے کوچے سے اب اک پل بھی نکلنا ہے کٹھن
اس قدر تنگئ اوقات نہیں تھی پہلے،



چین حاصل ہے کسے اس گردشِ افلاک میں
کتنے انساں روز ملتے جارہے ہیں خاک میں
ہے جہان رنگ وبو میں اس قدر خوف وہراس
دل نہیں لگتا ذرا بھی کوچۂ سفاک میں،



ہر ظلم ترا پیار کی سوغات لگے ہے
تو قتل کرے بھی تو کرامات لگے ہے
تیرے لب و رخسار تو حد درجہ ہیں شیریں
لیکن تری تلوار سی ہر بات لگے ہے،



کام کچھ لوگ کیا کرتے ہیں نادانی کا
اور بن جاتے ہیں اسباب پشیمانی کا
ان کی تکلیف کبھی ختم نہ ہوگی سیفی
جن کو احساس نہیں اپنی پریشانی کا،


کبھی ایسی خطا مت کیجئے گا
تعلق منقطع مت کیجئے گا
عداوت کا چلا کر تیر سیفی
زباں کو بے مزہ مت کیجئے گا،


چاندنی رات کی معدوم ہوئی جاتی ہے
ہر خوشی نقطۂ موہوم ہوئی جاتی ہے
اہل حق خوف سے خاموش ہیں یکسر سیفی
دنیا بھی صورت معصوم ہوئی جاتی ہے،



ابھی بھی خون و خنجر سامنے ہے
تباہی کا وہ منظر سامنے ہے
سدا ہوشیار رہنا ہے ضروری
بڑا خونخوار لشکر سامنے ہے،



محبت مخلصانہ ڈھونڈتے ہیں
بصیرت عالمانہ ڈھونڈتے ہیں
تعبد بھی نمائش سے ہو عاری
تکلم مخلصانہ ڈھونڈتے ہیں،



کہے ہے کون ہے بے کار شاعری کرنا
بڑا مزہ ہے مرے یار شاعری کرنا
یہ سوز قلب وجگر بھی ہے ساز عقل خرد
جنون کے بھی ہیں آثار شاعری کرنا،



کیوں بپا ہے حشر سامانی نہ پوچھ
آئینہ ہوں میری حیرانی نہ پوچھ
کارواں گم ہو گئے جس موڑ پر
پھر وہی راہیں ہیں انجانی نہ پوچھ۔



اسرار عالم سیفی کی شاعری میں درس وفا بھی ہے، عشق وعاشقی کا رنگ و آہنگ بھی، جنون وبیقراری بھی ہے، سکون وقراری بھی ہے، سوز وگداز بھی ہے، زندگی کے کئ رنگ بھی ہیں۔اسرار احمد کے کلام کی نمایاں خوبی سادگی و سلاست اور روانی ہے ۔ آپ نے اپنی شاعری میں عام فہم زبان‘ آسان اور سہل الفاظ استعمال کئے ہیں۔ آپ تکلف تصنع اور بناوٹ سے بچتے ہیں اور نہایت ہی سادگی کے ساتھ الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، مگر انداز نہایت ہی موثر اور دلنشین ہوتے ہیں۔


صداقت کا پہلو آپ کی شاعری میں ہر جگہ  نظر آتا ہے۔ وہ جذبات وخیالات کو حقیقت و صداقت کی زبان مین ادا کرتے ہیں۔الطاف حسین حالی شاعری میں جھوٹ اور مبالغہ آرائی کے خلاف ہیں۔ اور حقیقت نگاری کو اس کی بنیادی صفت قرار دیتے ہیں۔ معاملات عشق و محبت کا ہو یا قومی و ملی افکار و خیالات‘ اسرار احمد سیفی صداقت کا دامن تھامے رہتے ہیں۔خلاصہ یہ کہ اسرار احمد سیفی کی شاعری حسن و بیان‘ بلند تخیلات ‘ حقیقت نگاری‘ سوزو گداز اور سادگی و سلاست پر مبنی ہے۔ آپ نے شاعری کوقوم وملت کی اصلاح کا بڑا اور اہم ذریعہ بتایا ۔ آپ اردو زبان وادب کے  بڑے خیر خواہ، اردو اور شاعری میں ہمیشہ زندہ رہنے والے ہیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages