پولس تھانوں کی مخبری اور دلالی نے مسلمانوں کو تباہ کردیا!
بقلم: حضرت مولانا اعجاز احمد خان رزاقی صدر تنظیم ابنائے دار العلوم دیو بند
جب اپنے ہی اپنوں کے دشمن بن جائیں تو اس قوم کی حفاظت اللہ ہی کے حوالے۔ اپنوں کی مخبری پولیس و دیگر اداروں کو کرتے ہوئے کمیشن کھانے سے معاشرے میں بھیک مانگ کر کھانا اچھا ہے لیکن معاشرے کی ستم ظریفی یہ ہے کہ پولیس حکام سے زیادہ تعلقات والے مخبروں کو ہی ہم اپنا محافظ سمجھنے پر مجبور ہیں. ابن بھٹکلی
دنیا کی تمام قوموں نے جس کام کو گندگی اور غلاظت سمجھ کر کوڑے دان میں پھینک دیا آج اسی کام کو ہماری قوم نے اپنے لیے عزت کا تاج سمجھ کر کوڑے دان سے اٹھا کر اپنے سر اور ماتھے پر سجا لیا؟
ہم بات کر رہے ہیں پولیس کی مخبری اور دلالی کی!
مسلمانوں میں جوجتنا بڑا نیتا ہے وہ اتنا ہی بڑا مخبر ہے اور مسلم قوم نے بھی اسی کو اپنا لیڈر مانا ہے جسکی پولیس میں مضبوط پکڑ ہو؟*
پولیس چوکی اور تھانوں کی دلالی نے ہماریقوم کو برباد کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے یہی وجہ ہے کہ جیلوں میں کورٹ کچہریوں میں 70 فیصد سے 80 فیصد مسلم عوام ہی الجھی ہوئی ہے ان کی گاڑھی کمائی کا بیشتر حصہ پولیس کی رشوت وکیلوں کی فیس اور کورٹ کچہریوں میں صرف ہو رہے ہیں ہمارے سماج کے مخبروں کی مہربانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں جرائم اور اپرادھ کی فیصدی میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے مسلم علاقوں میں سرکاری ہسپتال ڈسپنسریاں اور اسکول و کالج کھلنے کے بجائے پولیس چوکیاں اور تھانہ کھل رہے ہیں اور انہیں دلالوں اور مخبروں کی مہربانیوں سے مسلم علاقوں میں ناجائز گانجہ چرس شراب سٹہ اور جوا کے اڈے کھل رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے نوجوان منشیات جوا، سٹہ، اسمیک، کے عادی بن کر اپنی زندگی اور مستقبل کو تباہ و برباد کر رہے ہیں نشہ جوا اور سٹہ کی لت نے ہمارے نوجوانوں کو ہر جرم کرنے پر مجبور کر رہا ہے جس کی وجہ سے مسلم معاشرے میں جرائم کا اضافہ ہورہا ہے مسلم علاقوں میں واقع پولیس چوکی اور تھانوں کو کمائی کا اڈہ تصور کیا جاتا ہے اس کا چارج لینے کے لیے بڑی بڑی بولیاں لگتی ہیں موٹی موٹی رقمیں رشوت دے کر ہمارے علاقے کے تھانوں اور چوکیوں کے انچارج صاحبان ہمارے علاقوں میں جرائم اور اپرادھ پر کنٹرول کرنے یا انکشت لگانے کی غرض سے نہیں آتے بلکہ وہ بھی کمائی کرنے کے مقصد سے آتے ہیں مسلمانوں کی ہر گلی میں مخبروں اور دلالوں کا جال بچھا رکھا ہے مسلمانوں کے برتن میں کیا پکا ہے داروغہ جی کو کچھ پتہ نہیں وہ تو مخبروں کے اشاروں پر روزآنہ مسلم محلوں سے دس بیس کو پکڑ کر حوالات میں ڈال کر رات بھر توڑائی کرتے ہیں اور اپنے مطلب کا جرم قبول کرالیتے ہیں صبح کو وہی مخبری کرنے والےلیڈر تھانہ اور چوکیون میں جاتے ہیں داروغہ جی سے کہہ کر کسی کو بیس ہزار کسی کو 30 ہزار اور کسی کو 50 ہزار روپے میں چھوڑ وا لاتے ہیں جو روپیہ یا رشوت نہیں دیتا ہے اس کو کٹہ ،پوڑیا ،یا چوری کے جرم میں جیل بھیج دیا جاتا ہے داروغہ جی اور انکے مخبروں کاتقریبا روزآنہ کا یہی معمول ہے!
داروغہ جی بھی خوش ہیں کہ موٹی رقم دے کر یہ چوکی حاصل کی ہےکچھ تو وصول ہوا وہ لیڈر نما مخبر بھی خوش ہو جاتا ہے کہ چوکی سے دلالی ( کمیشن) آگیا.
آج کل پولیس نے بھی اپنی آمدنی میں اضافہ کے لئے ایک اسکیم نکالی ہے وہ روزآنہ کسی نہ کسی موبائل چور کو گرفتار کر لاتی ہے اور اس سے بیس تیس ہزار روپیہ رشوت لینے کے ساتھ ساتھ تین چوروں کا نام بھی اگلواتی ہے اپنی رہائی کے لیئے ملزم کو تین چوروں کا نام بتانا پڑتا ہے خواہ وہ نام فرضی ہی کیوں نہ ہوپولس کی اس اسکیم سے اس کی آمدنی اور مسلم چوروں کی تعداد میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے اور پھر انہی چوروں سے پولس اپنے علاقوں میں جھوٹی سچی مخبری کراتی ہے پولس کی مخبری نہ کرنے پر ان سابق چوروں پر علاقے میں ہوئی نئی چوری کا تازہ مقدمہ لگا کر جیل بھیج دیا جاتا ہے اس لئے ہمارے مسلم نوجوان بھی پولس کی کمائی کے لیئے جھوٹی سچی مخبری کرنے پر مجبور ہیں اور ان نوجوانوں کی مخبری اور پولس کی کمائی کے لئے زیادہ تر بے گناہ افراد انکے گرفت میں آتے ہیں اور یوں بھائی بھائی کا گلا کٹوا کر اپنی سیاست چمکا رہا ہے!
آج تھانوں اور پولس کی دلالی کی وجہ سے مسلم قوم تباہ و برباد ہو رہی ہے مسلم سماج کو اس جانب توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے-
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں