*تاریخ جامع مسجد(گڑ بازار) مالیگاوں*
قسط اول-تعمیر قدیم
*سلیم ناصر ندوی*
مالیگاوں کیمپ میں ایک خیراتی نامی باثروت تنبولی مقیم تھے۔وہ صوم صلٰوة کے پابند تھے اور جمعہ کے روز مالیگاوں کے بازار میں تمباکو فروخت کرنے آتے تھے۔بازار سے قریب کوئی مسجد نہیں تھی اس لئے انھوں نے ١٢٧١ھ میں زمین کا ایک قطعہ خرید کر ریت کے فرش پر سائبان بنوایا اور اسطرح اس بندہ خدا کی کوششوں سے دس بارہ آدمی اس چھوٹی سی مسجد میں نماز ادا کرنے لگے جو بعد میں جامع مسجد کہلائی ۔
چند ماہ بعد تین محراب پر مشتمل گچ کی مسجد کی تعمیر شروع ہوئی جس کی تکمیل کیلئے ڈھائی سال کا عرصہ لگا اس مسجد کے عرض کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ایک صف میں نو آدمی نماز ادا کرسکتے تھے۔
کئی برس بعد برطانوی حکومت کی جانب سے حاکم وقت مسٹر اسٹیور نے جامع مسجد کے چاروں طرف کی کشادہ زمین عطاء کی۔١٢٩٨ھ بمطابق ١٨٨٠ء میں فوجدار جناب عبدالسلام صاحب نے اذان خانہ کی سمت کی دیوار نیز کنویں وحمام کی جگہ کی بنیاد کے ساتھ ساتھ
مغرب ،شمال،اور جنوبی سمت کی بنیاد اپنے ذاتی خرچ سے تعمیر کی۔١٣٠٠ھ بمطابق ١٨٨٢ء میں عبدالسلام فوجدار کے انتقال کے بعد مشاہیر شہر حاجی قیام سردار رح ،وزیر سردار ، بڑے حکیم محمد اسماعیل اور بدھو حکیم وغیرہ نے تین محراب کی عمارت شھید کرکے اس کی تعمیر و توسیع شروع کی مسجد کی اس نئی عمارت کیلئے عام لوگوں سے عطیات جمع کئے گئے دوسال کے عرصہ میں ماہ ذی الحجہ میں تعمیر وتوسیع پایہ تکمیل کو پہنچی
اس تعمیر کے بارہ سال بعد بروز شنبہ ١٣صفر ١٣١۴ھ ١٨٩۵ء علی الصبح موسم ندی میں سیلاب آیا طغیانی کا عالم یہ تھا کہ موسم ندی کا پانی مسجد کی اندرونی چھت سے لگ کر بہنے لگا مسجد میں آویزاں بلّوری فانوس تک سیلاب کی مٹی اور ریت چھپ کر رہ گئی اس وقت مغرب کی سمت میں واقع باغیچہ و حوض نہ تھے۔سیلاب سے قبل حوض کا شمالی اور باغیچہ کی مغربی دیوار تعمیر ہوچکی تھی۔ سیلاب کا اس قدر زور تھا کہ وہ ڈھ گئی طغیانی کے بعد مسجد کی شکستہ دیواروں کی تعمیر وصفائی کا فیصلہ کیا گیا۔سیلاب کی وجہ سے بازار کا حصہ بھی ریت اور مٹی سے پر تھا۔
تجویز آئی کہ اسی مٹی اور ریت کے استعمال سے تعمیر مسجد کی جائے اتفاق یہ کہ ناسک سے ایک انگریز مالیگاوں کے دورے پر تھا اس سے اجازت طلب کی گئی۔ اس نے بازار کا معائنہ کیااور اجازت دیدی۔ اجازت مل جانے کے بعد ماہ صفر ١٣٠۴ھ بروز منگل مولانا عبداللّٰہ صاحب ودیگرعمائدین شہر کی جانب سے ھر کوچہ وبازار میں اعلان کیا گیاکہ دوسرے دن بازار میں کاروبار مکمل بند رہیگا۔ ساتھ ھی ساتھ اس اعلان کے ذریعے تمام مسلمانان شہر کو بوقت صبح جامع مسجد کے قریب جمع ہونے کی تلقین کی گئی دوسری صبح لوگ حاضر ہوئے۔مسجد کے جنوبی سمت واقع بازار سے مٹی لاکر ٹوٹی ہوئی مسجد کا خلال اور شگاف بھرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ہزاروں کی تعداد میں بانس کی ٹوکریاں فراہم کی گئی۔ لوگوں نے بڑے جوش وخرش اور امنگ سے مٹی کھودنے اور دیوار کی تعمیر کا کام شروع کیا۔ صبح سے بارہ بجے تک شگاف کو پر کرنے کا کام مکمل ہوگیا۔
اس کے بعد جنوبی سمت کی دیواریں اٹھائی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ حوض کا کام شروع ہوگیا ،اور باغیچے میں پودے بھی لگائے گئے۔
مسجد کے صدر دروازے کی طرف مینار بہت چھوٹے تھے انہیں شہید کر سہ گنا اونچے مینار تعمیر کئے گئے۔
یہ ١٣١٧ھ بمطابق ١٨٩٨ء میں بن کر تیار ہوئے۔
مدرسہ تعلیم القرآن کا اجراء ١٩٢٠ء ١٣٣٩ھ میں مولانا اسحاق صاحب رحمة اللّٰہ علیہ کے ہاتھوں عمل میں آیا۔۔۔۔جاری
(مستفاد حیات حافظ مدار بخش رحمة اللّٰہ علیہ)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں