src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> مالیگاؤں سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر، نقاد، معلم و ڈرامہ نگار ڈاکٹر ذاکر خان صاحب کا یوم ولادت 10 دسمبر - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

ہفتہ، 10 دسمبر، 2022

مالیگاؤں سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر، نقاد، معلم و ڈرامہ نگار ڈاکٹر ذاکر خان صاحب کا یوم ولادت 10 دسمبر

,




مالیگاؤں سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر، نقاد، معلم و ڈرامہ نگار ڈاکٹر ذاکر خان صاحب کا یوم ولادت 10 دسمبر





تاریخ پیدائش۔۔۔۔۔    10دسمبر  1975
ڈاکٹر ذاکر خان بنیادی طور پر انگریزی ادب کے طالبِ علم رہے ہیں، انہوں نے انگریزی میں ایم اے کیا، اس کے بعد مراٹھی میڈیم سے ایم اے ہسٹری کیا پھر فارسی سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی اور ممبئی یونیورسٹی سے اردو میں ایم کیا
فارسی سے پوسٹ گریجویشن میں پوری یونیورسٹی کو ٹاپ کرتے ہوئے یونیورسٹی کا سب سے بڑا اور اہم چانسلرس میڈل اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔





اسی طرح ایم اے اردو میں بھی پورے ڈپارٹمنٹ
 میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی. موصوف بی ایڈ و بی پی ایٖڈ بھی ہیں 
ان سب کے علاوہ آپ نے زمانۂ طالبِ علمی ہی میں مدرسہ معہدِ ملّت سے عالمیت کا کورس مکمل کیا اور سندِ فراغت حاصل کی۔
کالج کے دنوں سے ہی شعر و ادب کا ذوق و شوق تھا۔شاعری کو عروج ممبئی آکر ملا۔ ممبئی کی ادبی محفلوں میں ایک اہم نام شمار کیا جاتا ہے۔
Www.urduchannel.in
پر آپ کے مضامین بھی دیکھے جا سکتے ہیں
کم و بیش ۱۵ سالوں سے اردو چینل میگزین کے لیے معاصر بین الاقوامی افسانوں کے تراجم کر رہے ہیں۔
 

جلد ہی افسانوں کے تراجم"دیس دیس کی کہانیاں"کے عنوان سے منظرِ عام پر آئے گا
غزلوں اور نظموں کے مجموعے بھی زیرِ ترتیب ہے
متعدد قومی اور بین الاقومی سمینار میں کامیاب شرکت کی ہے- مقالہ خوانی میں ایک معتبر مقام رکھتے ہیں-



موصوف کے یوم ولادت پر ان کچھ منتخب اشعار احباب کی خدمت میں پیش ہیں 

انتخاب و پیشکش....طارق اسلم

 ردیف دل ہے مرا قافیہ نظر اس کی
سخن شناس بتا شعر میں کمی کیا ہے

معجز نمائی خواب کی ہر شب ہے نیند میں
اے کاش رتجگوں میں حقیقت دکھائی دے

 نیلم و یاقوت و مرجان و عقیق اپنی جگہ
قطرۂ شبنم کی ذاکر ضوفشانی اور ہے

عشق والو!  یہ ہنر دیر سے آپاتا ہے
محفلِ شعر میں مقتل بھی سجائے رکھنا

 حاصلِ رنگینیِ دنیا فقط ہے خود سری
سرفرازی بےخودی کے راز میں مظہر میں ہے

میز پر جلوہ نما جتنی بھی تحریریں ہیں
میدے احساس میں لپٹی تری تصویریں ہیں

 گرچہ پروئے شعر میں جذباتِ رنگ و نور
لیکن بیاں نہ ہوسکیں گہرائیاں تمام

شہکار کی تکمیل میں قربان ہوا ہے
بس اتنی کہانی ہے مرے دستِ ہنر کی

 اسی کی شکل ذاکر شعر میں ہے روح کی مانند
غزل کے جسم میں شامل وہی جذبات کرتا ہے

شاعری خلوت محبت آنچ آتشدان ہے
اس کے میرے درمیاں بس فیض کا دیوان ہے

 عجب نہیں کہ نظر آئے نامۂ اعمال 
ہماری روح بدن سے گریز کرنے لگی

زنداں میں ترے دل کے آرام میسر ہے
ممنوع بنا دے اب ہر حکمِ رہائی کو

 نہ ہوسکے جو ادا زباں سے نہ کر سکوں میں بیاں جنھیں اب
مری نگاہوں میں قید ہیں وہ شکستگی کے تمام منظر

میں ترے شہر میں آیا تھا یہی سوچ کے بس
تجھ کو دیکھے ہوئے لگتا تھا زمانے گزرے

 مجھ کو چھلکا نہ کبھی دیدۂ نمناک سے تو
تو نے پلکوں پہ  سجایا ہے سجا رہنے دے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages